اختیار کرنا ضروری ہیں جن سے نوجوانوں کے جسمانی اور روحانی تقاضوں کو سکون اور قرار حاصل ہو۔ علمی اور عملی سطح پر ان کی شخصیت میں پایا جانے والا تضاد بتدریج کم ہو اور پھر آہستہ آہستہ یہ تضاد ختم ہو جائے۔ اعتقادات اور اصول شریعت کے بارے میں ایسا حکیمانہ اسلوب اختیار کیا جائے جو افہام و تفہیم اور نصیحت کا حسین امتزاج ہو۔ قرآن وسنت اس اصول تربیت واصلاح سے لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاریات: ۵۵)
’’ہاں تم نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمانداروں کو فائدہ دیتی ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
( (اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃ)) [1]
’’دین مکمل نصیحت و خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب اور اس کے رسول کے لیے اور مسلمانوں کے اماموں اور عام لوگوں کے لیے۔
دیکھیے! اللہ تعالیٰ نے اعتقاد کی درستی کے لیے کیا علمی اور عقلی اسلوب اختیار فرمایا ہے:
﴿لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ﴾ (الانبیاء: ۲۲)
’’اگر آسمان وزمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بدانتظامی کے سبب برباد ہو چکے ہوتے۔‘‘
گفتگو اور سوال وجواب کا طریقہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ’’تمہیں معلوم ہے مومن کون ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا: ’’حقیقی مومن وہ ہے جسے
|