کیا کرتے تھے تو انہوں نے جواب دیا:
( (کَانَ یَکُوْنُ فِی مَھْنَۃِ أَھْلِہِ (خِدْمَۃِ أَھْلِہِ) فَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ اِلٰی الصَّلَاۃِ)) [1]
’’آپ اپنے اہل خانہ کی معاونت کیا کرتے تھے، مگر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو سب کام چھوڑ کر نماز کے لیے نکل جاتے۔‘‘
اگر ہم ان اخلاق حمیدہ کو اپنا لیں تو ہمیں درج ذیل فوائد بآسانی حاصل ہو جائیں گے:
۱۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے بن جائیں گے۔
۲۔ ہم اپنے اہل خانہ یعنی بیوی بچوں کی مدد کرنے والے بن جائیں گے۔
۳۔ ہم تواضع اور انکساری اختیار کرنے والے ہوں گے اور تکبر سے دور رہیں گے۔
بعض لوگ اپنی بیوی سے فوراً کھانا لانے کا مطالبہ کرتے ہیں جب کہ ہانڈی ابھی تک چولہے پر ہوتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچہ چیخ رہا ہے وہ ماں کا دودھ پینا چاہتا ہے مگر حضرت شوہر ذرا بچے کو پکڑ سکتے ہیں نہ تھوڑی دیر انتظار کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مذکورہ احادیث ایسے لوگوں کے لیے باعث نصیحت ہیں جن کا موڈ گھر میں اکثر خراب رہتا ہے۔ ان احادیث پر عمل کرنے سے ان کے گھریلو حالات میں تغیر آسکتا ہے۔
۳۔دل پذیر نصیحت:
شباب کا دور نوجوانوں میں جسمانی اور روحانی تقاضوں کا دور ہوتا ہے۔ اس دوران افکار و کردار میں سیمابیت ہوتی ہے، جذبات میں بے ہنگم اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ اعتقادات اور اصول شریعت کے متعلق شکوک وشبہات جنم لیتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ شباب کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے باعث اور دین حنیف کے لطیف آفاقی اصولوں سے متعلق کم علمی اور ناتجربہ کاری کی بنا پر ہوتا ہے۔ عمر کے اس مرحلے میں مربی کو نصیحت کے ایسے اسالیب
|