﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ (النساء: ۶۵)
’’قسم ہے تیرے رب کی! یہ ایمان دار نہیں ہوسکتے،جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘
۵۔یوم آخرت پر ایمان:
یوم آخرت سے مراد قیامت کا دن ہے، جس دن لوگوں کو حساب وکتاب اور جزاوسزاکے لیے اٹھایا جائے گا،اسے یوم آخرت اس لیے کہتے ہیں کہ جب اہل جنت اپنی منزلوں میں اور اہل جہنم اپنے ٹھکانوں میں چلے جائیں گے تو اس کے بعد کوئی دن نہیں ہوگا۔
یوم آخرت پر ایمان تین باتوں کو شامل ہے:
۱۔ بعث ونشور پر ایمان :
اور وہ یہ ہے کہ مردوں کو زندہ کیا جائے گا، جب صور میں دوسری مرتبہ پھونک ماری جائے گی، اس وقت سارے انسان رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے،ننگے پاؤں،بغیر جوتے کے برہنہ بغیر لباس اور بغیر ختنہ کے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿ يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ ﴾ (الأنبیاء: ۱۰۴)
’’جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی، اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے رہیں گے۔‘‘
قیامت کے دن اٹھایا جانا حق وثابت ہے، جس پر کتا ب وسنت اور اجماع امت دلالت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
|