جائے اور انسان انفرادی، عائلی، معاشرتی اور اجتماعی پیمانے سے پر امن اور خوشحال ہو، ایسی زندگی کے لیے اسلام کے اصول وضوابط سب سے بہتر اور عمدہ ہیں۔ یہ نوع انسانی کے لیے افراط و تفریط سے پاک اور اعتدال کے فطری اصولوں پر مبنی ہیں۔ نوع انسانی کے جس بے نظیر گروہ نے خاتم النّبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت وہدایت کے زیر سایہ اپنی زندگیاں ان اصولوں کے مطابق گزاریں، اس گروہ کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اعتدال پسند اور میانہ رو امت کے لقب سے پکارا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ﴾ (البقرۃ: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو میانہ رو امت بنایا ہے کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہے۔‘‘
نوع انسانی کی معلوم تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ روئے زمین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے تشکیل پانے والے معاشرہ سے بڑھ کر ہر پہلو سے بہتر، پر امن اور خوشحال معاشرہ کبھی قائم نہیں ہوا۔ اس لیے مسلم جوانوں کو اپنے بے مثال اسلاف کی روش اختیار کرنی چاہیے جو اسلام کی واقعی عملی شکل تھی۔ اسی راہ پر چل کر وہ اپنی اور ساری نوع انسانی کی زندگی کو حقیقی امن اور خوشحالی سے بھر سکتے ہیں۔
۱۰۔نیک عمل میں ریا و نمود سے بچنا:
انسان جب اپنی بڑائی اور بہتری جتانے کے لیے اپنی خوبیوں اور اچھائیوں کا اظہار کرتا ہے تو اسے ریاء ونمود کہا جاتا ہے۔ یہ عادت اسلام کی نظر میں تو معیوب ہے ہی لیکن عام انسان بھی اسے انشراح قلب کے ساتھ اچھا نہیں جانتے۔ انسان کی جملہ خوبیاں خواہ ان میں انسانی کسب کا بھی دخل کیوں نہ ہو، درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہیں۔ اس لیے کوئی انسان جب اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے کوئی کام کرتا ہے تو خواہ وہ کام کتنا ہی بڑا کیوں نہ
|