کے لائق یہی شخصیت اور یہ کردار ہے جس کے متعلق کہا گیا کہ (کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ) ’’آپ کا کردار مجسم قرآن تھا۔‘‘ ظاہر ہے کہ غیر اقوام میں تو کیا امت مسلمہ کی کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو آپ کے جیسا یہ امتیازی مقام حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: ۲۱)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرماتا ہے:
﴿ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا () وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا﴾ (الاحزاب: ۴۵۔ ۴۶)
’’اے نبی! ہم نے تجھ کو گواہی و خوش خبری دینے والا، ڈرانے والا اور اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
ابوسفیان نے ہزار عداوت کے باوجود قیصر کے سوال کے جواب میں کہا تھا: نہیں۔ بعد میں رومی بادشاہ نے اہل دربار کے سامنے ابوسفیان سے کہا: میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کبھی جھوٹ کا مرتکب ہوا تھا تو تم نے جواب دیا: نہیں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ جو عام لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ کے بارے میں جھوٹ کیسے بولے گا۔[1]
۶۔ اہل خانہ کو شوقِ جہاد کی نصیحت کرتے رہنا:
نوجوانوں میں روحِ جہاد پیدا کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ جس نوجوان میں یہ جذبہ پیدا نہ ہوا اس کی شخصیت یقیناً ناقص ہوگی۔ جسمانی تربیت کے ضمن میں جو اصول بتائے گئے ہیں اگر ان کو بچے کی نشوونما میں پوری طرح اختیار کیا گیا ہے تو شوق جہاد کی تکمیل کے لیے اسے ایک مضبوط جسم حاصل ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں کو شروع ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے حالات ایسے ہی سکھلاتے تھے جیسے قرآن پاک کی آیات، جیسا کہ حضرت
|