سعد بن ابی وقاص کی روایت میں مذکور ہے کہ ہم اپنے بچوں کو آپ کے غزوات قرآن کی سورتوں کی طرح سکھلایا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاکید فرمایا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو تیر اندازی اور شہسواری سکھاؤ اور انہیں حکم دو کہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوں۔ عمر کے اس مرحلے میں نوجوانوں میں مہم جوئی کے جذبات زوروں پر ہوتے ہیں۔ ٹولیاں بنا کر پھرنا، شکار کے لیے گشت کرنا اس کا ایک مظہر ہے۔ اس جذبے کو شوق جہاد کی طرف موڑنا ایک دانش مند وذمہ دار مربی کا فریضہ ہے۔ اس جذبے کی تسکین اور روحِ جہاد کی تازگی کے لیے مقابلے کے کھیل نہایت مفید ہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اگر مربی اس جذبے کو شوق جہاد کی طرف نہیں موڑ سکے گا تو نوجوان جرائم پسندی کے خوگر ہو سکتے ہیں۔ مار، پیٹ، ظلم، تعدی، چوری، اچکا پن، ڈاکہ زنی اور قتل وغارت گری اس جذبے کے فقدان کے نتیجے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اہم ذریعہ نوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بہادرانہ اور مجاہدانہ کارناموں سے نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہے، تاکہ تاریخ اسلام کے جیالوں کے کارناموں کو مثال بنا کر نوجوانوں میں شوق جہاد کو فروغ دیا جائے۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی اور غار ثور میں پناہ لی اس وقت سارا مکہ ان کی جان کا دشمن تھا۔ چاروں طرف ان کی تلاش میں لوگ گھوڑے دوڑا رہے تھے۔ گرفتاری کے لیے زبردست انعام کا اعلان ہو چکا تھا۔ ایسے خطرناک وقت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دونوں بچیوں عائشہ اور اسماء رضی اللہ عنہما اور ان کے بیٹے عبداللہ نے جس بے خوفی اور شجاعت کا ثبوت دیا ہے وہ ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ بچیوں نے گریہ وزاری کے بجائے دونوں عظیم مہاجروں کے لیے زاد راہ تیار کیا۔ سیدہ اسماء نے جوش عمل میں اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے توشہ دان کا منہ باندھا اور دوسرے ٹکڑے کو کم بند بنایا اور لسان رسالت مآب سے اس کم عمری میں ذات النطاقین کا خطاب حاصل کیا۔ عبداللہ مکہ میں دشمنوں کی نقل وحرکت، ان کے منصوبے اور دیگر خبریں معلوم کرتے اور آنکھ بچا کر شام کو غار ثور میں مقیم
|