گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ آسمان سے پتھروں کی بارش کریں گے اور زمین کو جنبش دیں گے۔ اگر وہ توبہ کر لیں تو بہتر ہے۔‘‘[1]
میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں اپنے عذابوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
۲۶۔ اہل خانہ کو صلہ رحمی کے طریقے سے آگاہ کرنا:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص یہ چاہے کہ اس کی روزی کشادہ کر دی جائے اور اس کی اچھی یادیں باقی رہیں اس کو اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا چاہیے۔‘‘ [2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے:
’’جو شخص صلہ رحمی کے بدلے میں صلہ رحمی کرے وہ رحم کو ملانے والا شخص نہیں ہے، بلکہ دراصل رحم کو ملانے والا شخص وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تب وہ صلہ رحمی سے کام لے۔‘‘[3]
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔ میں ان سے جڑنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے کٹتے ہیں۔ میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان سے تحمل سے پیش آتا ہوں مگر وہ میرے ساتھ جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ تم نے بیان کیا تو گویا کہ تم ان کے منہ میں خال ڈال رہے ہو۔ جب تک تم اسی حال پر رہو گے تب تک اللہ کی طرف سے ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔‘‘[4]
|