Maktaba Wahhabi

157 - 224
۱۰۔تربیت میں پیار کی تاثیر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم مدینہ منورہ سے تین چار میل کے فاصلے پر عوالی میں ایک شخص کے یہاں زیر پرورش تھے۔ آپ وہاں پیدل تشریف لے جاتے اور بچے کو گود میں لے کر منہ چومتے۔[1] آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان سے فرماتے: میرے بچوں کو لاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (حسنین کو) سینے سے چمٹا لیتے تھے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان کی پرورش کرتی تھیں۔ انہوں نے عتیبہ کی لونڈی سلمہ کو بچوں کی پرورش کے لیے مقرر کر رکھا تھا جو انہیں دودھ پلاتی اور کھانا کھلاتی تھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ﴾ (البقرۃ:۲۳۳) ’’اور اس (دودھ پلانے کی صورت میں ) ان کا کھانا کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمہ ہے۔‘‘ شیرخوارگی کے دور میں بچے کی جسمانی تربیت سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسلام نے خصوصیت سے والدین پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے تاکہ بچہ صحت مند اور قوی ہو اور آگے چل کر اپنی ذمہ داریاں بھر پور طریقے سے انجام دے سکے۔ آیت بالا میں اللہ تعالیٰ نے گھر والوں اور بچے کی ضروریات خور ونوش، پہننے اور اوڑھنے وغیرہ کی ذمہ داری باپ کے سر پر ڈالی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ایک دینار تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار غلام یا لونڈی آزاد کرنے میں اور ایک دینار کسی مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار اپنے گھر والوں اور بچوں پر خرچ کیا۔ ان میں سب سے بڑا ثواب اس کا دینار کا ہے جو اہل خانہ اور
Flag Counter