Maktaba Wahhabi

116 - 224
( (لَا ضَرَرٌ وَ لَا ضِرَارٌ۔))[1] ’’نہ تم خود کسی کو تکلیف دو اور نہ دوسرا تم کو تکلیف دے۔‘‘ اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں وارد ہے: ﴿ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا﴾ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں : ’’نوح علیہ السلام کی بیو ی ان کے بھید کو دوسروں کے سامنے بیان کرتی تھی، پس جب کوئی نوح علیہ السلام کے اوپر ایمان لاتا تھا تو وہ بادشاہ اورشرپسند لوگوں کو اس کی اطلاع دے دیتی تھی، اسی طرح لوط علیہ السلام کی بیوی جب ان کے یہاں کوئی مہمان آتا تھا تو لوگوں کواس کی خبر کردیتی تھی تاکہ وہ آکر ان کے ساتھ برائی کریں۔‘‘[2] ۹۔ بچوں کو حلال و حرام کی تعلیم دینا: [[[شرک اکبر کی مثالوں میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کرنا بھی ہے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کا حق اللہ کے علاوہ کسی کو ہے یا جاہل محکموں یا قوانین کو رضا و اختیار سے مان کر اسی جگہ فیصلہ کروانا اور اس کو جائز سمجھنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبہ: ۳۱) ’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے۔‘‘ عدی بن حاتم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تلاوت کرتے ہوئے سنا تو کہا وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ نے کہا: ہاں ! لیکن وہ اللہ نے جسے حرام کیا اسے حلال کہتے
Flag Counter