ساتھ اور والدین کے ساتھ نرمی سے اور تہذیب یافتہ انداز کے ساتھ گفتگو سکھانی چاہیے۔
بچوں کو دین اسلام کی باتیں عقیدہ توحید کے مطابق بتانی چاہئیں تاکہ ان کی پرورش ایک صالح اور مجاہد کی طرح ہو۔
۴۔ بچوں کو بڑوں کا ادب و احترام کرنے کا سبق دینا:
بچوں کی اجتماعی تربیت کے لیے تاکہ وہ معاشرے میں خوش اخلاق اور بلند سیرت ہوں، ذاتی مفادات کو اجتماعی مفاد پر قربان کریں، دوسروں کے لیے محبت اخلاص اور تعاون وایثار کا پیکر ہوں۔ کچھ اجتماعی حقوق ہیں جن کی ادائیگی کی تربیت بچوں کو دی جائے تاکہ معاشرے میں انہیں آگے چل کر مناسب مقام مل سکے۔ اسی سلسلے میں سب سے اول ضروری ہے کہ بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا سکھایا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہنچانے۔[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضیافت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتدا کرتے، پھر وہ جو آپ کے دائیں ہوتے تھے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نماز کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرماتے برابر ہو جاؤ، کج مت ہو ورنہ تمہارے دل کج ہو جائیں گے اور میرے قریب عقل وفہم والے لوگ یعنی بالغ مرد رہیں پھر جو اُن سے فروتر ہیں، پھر جو اُن سے فروتر ہیں۔[2]
تین قسم کے لوگوں کی بے ادبی صرف منافق کر سکتے ہیں۔ مومن، پیر عالم اور عادل خلیفہ۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا تھا۔
|