تصور اس وقت پروان چڑھتا ہے جب ہم مغربیت کے سایہ میں بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور انہیں کھلی آزادی دے دیتے ہیں۔
بعض لو گ پوری زمام ملکیت لڑکے کو دے دیتے ہیں اس خوف سے کہ وہ ہماری کارکردگی سے ناخوش ہوتاہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتاہے میں اس سے خوش ہوں۔
بعض لوگ پوری ذمہ داری لڑکے کے اوپر عائد کردیتے ہیں،مثلا باپ بیٹے ایک ساتھ کسی سفر میں ہوں تو باپ بیٹے کو تمام غلطیوں کے اوپر نشاندہی کرنے کو کہے اور وہ یہ سمجھ کر لڑکے کے ساتھ بالکل الٹا کام ہی کرے حالانکہ یہ بہت غلطی ہے۔
بعض لوگ لڑکے اور لڑکیوں کو کھلی آزادی دے دیتے ہیں تاکہ وہ عالم شباب میں جن چیزوں سے لطف اندوز ہونا چاہیں ہو سکیں،کیا ایسے والدین اس بات پر غور وخوض نہیں کرتے کہ کل قیامت کے دن ان کے بچے ان کاگریبان پکڑ کر کہیں گے :
’’اے ابو! آپ نے مجھے معصیت پر کیوں چھوڑدیا۔‘‘
۵۔بچوں کے لیے اہم امور کا اہتمام:
اس کے تحت بہت ساری چیزیں آتی ہیں جن میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جارہاہے:
(ا لف)....قرآن کریم اور اسلامی آداب کا سکھانا:
بہتر ہے کہ باپ اپنے بچوں کو روزا نہ ایک جگہ جمع کرکے انہیں قرآن پڑھ کر سنائے، اس کے معانی ومطالب اور اس کے مفاہیم بیان کرے،کیونکہ بچوں کی ایسی تربیت کرنے سے ان پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑتاہے، بہت سارے ایسے چھوٹے بچے ہوتے ہیں جو ہر جمعہ اپنے والد کے سورۂ کہف کی تلاوت کی وجہ سے اسے حفظ کر لیتے ہیں، انہیں اسلامی عقائد کی تعلیم دے جیسا کہ حدیث میں وارد ہواہے:
( (إِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ۔))
’’اللہ کے دین کی حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔‘‘
|