Maktaba Wahhabi

189 - 224
لوگوں سے ملنے جلنے کا موقع دیا جائے۔ اسے دوستوں کی صحبت حاصل رہے اور بڑے لوگ ہوں یا چھوٹے، اسے ان کے سامنے بات چیت کا موقع دیا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ اسلامی آداب کے ماتحت ہونا لازم ہے۔ اس سے ان کا شرمیلا پن دور ہوگا، خود اعتمادی پیدا ہوگی اور ہر شخص کے سامنے حق بات کہنے کا ان میں جذبہ اور خوپیدا ہوگی، سدا بہار درخت کے متعلق جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جو بچے تھے ان کے درمیان موجود تھے، ان کے ذہن میں آپ کے سوال کا صحیح جواب آیا لیکن شرم سے اس کا جواب نہیں دے سکے۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعد میں جواب دینے کو بہت بہتر خیال فرمایا اور اس کے لیے ہمت افزائی فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شربت آیا، آپ کے دائیں ایک بچہ اور بائیں عمر رسیدہ لوگ بیٹھے تھے۔ آپ نے بچے سے فرمایا کہ تم اجازت دیتے ہو کہ میں شربت انہیں دوں ؟ بچے نے کہا آپ کے دست مبارک سے ملا ہوا حصہ میں کسی کو نہیں دوں گا۔[1] ایسی ہی مثالیں جو سیرت نبی کریم سے بے شمار ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہمیں ان مثالوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور شرم وحیا کے پیکر بنانا چاہیے۔ ۶۔غصہ ضبط کرنے کی تلقین کرنا: یہ ایک فطری صفت ہے جس کا ظہور بچپن ہی میں ہونے لگتا ہے۔ اسلامی تربیت اس صفت کو دائرہ اعتدال اور پسندیدہ پیمانے پر رکھنا چاہتی ہے اس لیے کہ غصہ جب عادت بن جاتا ہے تو بچے کی تندرستی، عقل، مزاج، اخوت و محبت اور وحدت معاشرہ کے لیے بے پناہ مضر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ﴾ (الشوریٰ: ۳۷) ’’اور جب وہ غصہ ہوتے ہیں تو فوراً معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
Flag Counter