’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن بن علی کے لیے اپنی زبان مبارک نکالتے تھے اور وہ آپ کی زبان مبارک کی سرخی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور اسے پکڑنے کے لیے تیزی سے ہاتھ بڑھاتے تھے۔‘‘[1]
یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے کی دعوت پر نکلے، اس وقت حسین رضی اللہ عنہ راستے میں کھیل رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے آگے بڑھے اور اپنا ہاتھ پھیلایا، چنانچہ وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ان کو ہنسایا یہاں تک کہ ان کو پکڑلیا اور ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ان کے سر پر رکھ کر ان کا بوسہ لیا۔‘‘[2]
۶۔بچوں کے لیے کھانے اور دیگر واجبات کے لیے ایک روٹین بنائی جائے:
بعض گھروں کے حالات سرائے اور ہوٹلوں کی طرح ہیں،جس میں رہنے والے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے اور دوسروں سے بہت کم ملتے ہیں۔گھروں کے نظام اوقات اتنے غیرمنظم ہوتے ہیں کہ بچے جب چاہتے ہیں کھانا کھاتے ہیں، جو ’’ادخال الطعام علی الطعام‘‘ کا سبب ہوتے ہیں اور جب چاہتے ہیں سو جاتے ہیں، جو رات میں نیند کے نہ آنے اور وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں اور یہ بد نظمی، ربط وتسلسل، جہد مسلسل، قیمتی اوقات کو ضائع کرتے اور بچوں کے ذہن میں عدم ڈسپلن کو بڑھاتے ہیں۔ بچے اور بچیاں مدرسوں اور یونیوسیٹیوں سے جب چاہتے ہیں نکل جاتے ہیں اور اساتذہ اور گھر والے اس پر دھیان نہیں دیتے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ تمام گھر والے ایک ساتھ کھانا کھاتے اور تمام کے احوال جانتے اور آپسی امور پر مفید تبادلہ خیال کرتے،گھر کے ذمہ دار پر واجب ہے کہ وہ بچوں کو گھر لوٹنے کا وقت متعین
|