اسے ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، دھوکہ دہی، ناجائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی اور دیگر مضرات سے پاک رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اس بازار کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی سود خورانہ اجارہ داری کو ختم کر دیا۔ جہازوں اور کشتیوں کے ذریعہ تجارت کے لیے اللہ نے سمندروں کو انسان کے تابع کرنے اور ہوائیں ان کے موافق چلانے کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ (الروم: ۴۶)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ خوشخبری پہنچائیں اور تم کو اپنی رحمت چکھائے اور تاکہ سمندروں میں بیڑے اس کے حکم سے چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ اس کی شکر گزاری کرو۔‘‘
۱۵۔کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھانا:
حضرت ابو حرہ رقاشی رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( (الا لا تظلموا، الا لا یحل مال امریء الا بطیب نفس منہ)) [1]
’’خبردار! ظلم مت کرو۔ خبردار! کسی شخص کا مال دوسرے کے لیے اس کی دلی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں۔‘‘
موجودہ دور میں یہ دستور چل نکلا ہے کہ لوگ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کون ضرورت اور مجبوری کے تحت اپنا مال سستے داموں فروخت کر رہا ہے۔ پھر اس کی مجبوری کا پورا اندازہ کر کے اس سے سودا بازی کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ قیمت گھٹا کر لے سکیں۔ اس طرح کسی
|