کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں اور ایسی سودا بازی ممنوع ہے، الا یہ کہ بائع بطیب خاطر کچھ کمی کر دے۔ لیکن مشتری اسے مجبور نہ کرے۔ اس صورت میں یہ بیع جائز تو ہوگی، لیکن مستحسن پھر بھی نہ ہوگی۔
ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ مشتری خود بسا اوقات ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ بائع خود اس کے ہاں اپنا مال کم سے کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ سب کام کمال ہوشیاری، جھوٹ، فریب اور بددیانتی سے انجام دیا جاتا ہے۔ ایسی سودا بازی فتنً فتنً حرام ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کا ایک واقعہ ہے، ایک صحابی کو کچھ ضرورت لاحق ہوئی تو انہوں نے دوسرے صحابی کو اپنا گھوڑا 500 درہم میں فروخت کرنا چاہا۔ مشتری نے گھوڑے پر سواری کرنے کے بعد اندازہ لگایا کہ یہ گھوڑا کم از کم 800 درہم کاہے۔ مشتری نے بائع سے کہا: اگر میں اس کی قیمت 600 درہم دے دوں تو تمہارا کیا خیال ہے؟ بائع بہت خوش ہوا اور بولا: سبحان اللہ! مجھے اور کیا چاہیے۔ وہ بولے: اگر 700 درہم ادا کر دوں تو؟ بائع اور زیادہ خوش ہوگیا۔ اسی طرح کرتے کرتے انہوں نے اس کی قیمت 800 درہم لگائی۔ مشتری نے پوچھا: اتنے قیمتی گھوڑے کو آخر تم سستے داموں کیوں بیچ رہے تھے۔ بائع نے کہا: میں اپنی ضرورت کے باعث مجبور تھا۔ مجھے اپنی لڑکی کو رخصت کرنا ہے۔ مشتری نے کہا: لڑکی کو رخصت کرنے کے لیے تنگ ہو کر خرچ کرنے کا شرعی طور پر کوئی جواز نہیں۔ اس نے مزید کہا کہ شریعت نے ہمیں ایسی تقریبات نہایت سادگی سے انجام دینے کا درس دیا ہے۔[1] دوسری بات یہ کہ شریعت نے ہمیں مال خریدنے کی اجازت دی ہے ان کی ضرورتیں خریدنے کی اجازت تو نہیں دی۔ اس کے کلام کا مدعا یہ تھا کہ اگر تم گھوڑا نہ بیچو تو بہتر ہے، لیکن جب دیکھا کہ وہ ہر حال میں گھوڑا بیچنا ہی چاہتا ہے تو پوری قیمت ادا کر کے اسے خرید لیا۔
|