Maktaba Wahhabi

115 - 224
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم لوگ جانتے ہو کہ اس کی مثال کیا ہے؟ اس کی مثال ایک شیطان عورت کی سی ہے جو راستہ میں کسی شیطان مرد سے ملتی ہے اور وہ اپنی حاجت پور ی کرتاہے اور لوگ اس کی طرف دیکھتے ہیں۔‘‘[1] (ب )....میاں بیوی کے آپسی اختلافات کو کہیں بیان نہ کیا جائے: بلاشبہ گھر کے اصل ذمہ دار میاں بیوی ہیں، ان کی درستگی میں گھر کی بقا وسلامتی ہے، اگر ان دونوں میں کوئی رخنہ پیدا ہوجائے تو گھر کی دیوار یں منہدم ہو سکتی ہیں، پس جب ان کے مابین کوئی اختلاف ہوجائے تو گھر کے اندر ہی اسے رفع دفع کردیا جائے اور گھر سے باہر اسے بیان نہ کیا جائے،کیونکہ ایسی صورت میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور جب باہرکے اختلافات اندر داخل ہو جائیں گے تو ان سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا، لیکن جب معاملہ کے سلجھنے کی صورت نظرنہ آتی ہو تو فریقین کا ایک ایک قریبی آدمی ان کے پاس بھیجے جائیں اور اس وقت ہم ایسا ہی کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا﴾ (النساء:۳۵) ’’اور اگر خاوند بیوی میں مخالفت پاؤ تو ایک منصف مرد کے کنبہ سے تجویز کرو اور ایک عور ت کے کنبہ سے اگر وہ دونوں مل کر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ بھی ان کو صلح کی توفیق دے گا۔‘‘ (ج)....افراد خانہ کو ایک دوسرے پر فوقیت نہ دی جائے: یہ حقیقت ہے کہ تمام افراد خانہ اسی وقت الفت ومحبت اور اخوت وانسیت کے ساتھ رہ سکتے ہیں کہ جب تمام کے دل ایک ہوں، کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہ ہو،تمام کو گھر کے اندر ایک درجہ حاصل ہو،سب کی باتوں اور مشوروں کی قدر کی جاتی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter