کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ۔))[1]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! اس امت کا کوئی شخص میرے بارے میں نہیں سنتا خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی، پھر وہ اس حالت میں مرجائے کہ وہ اس دین پر ایمان نہ لائے جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں تو وہ جہنمی ہوگا۔‘‘
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطلب ہے تسلیم واطاعت کے ساتھ ہر اس چیز کی تصدیق کرنا جو آپ لے کر آئے ہیں، صرف تصدیق کافی نہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا شمار مومنوں میں نہیں کیا گیا، جبکہ وہ آپ کی لائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرتے تھے اور یہ شہادت بھی دیتے تھے کہ اسلام سب سے افضل وبہترین دین ہے۔
۱۔ لاالہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی دینا:
شہادت لاالہ إلا اللہ محمد رسول اللّٰہ یہ ہے کہ دل میں عقیدہ رکھا جائے اور زبان کی شہادت سے اس کی تعبیر ہو، گویا عقیدہ کی پختگی کی بناپر اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو، اس شہادت کو ایک رکن مانا گیا،جبکہ جس بات کی شہادت دی جارہی ہے وہ حقیقت میں دو باتیں ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے پہنچانے والے ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت ورسالت کی شہادت گویا ’’لاالہ إلا اللّٰہ‘‘کی شہادت کا تکملہ ہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں شہادتیں اعمال کی صحت و قبولیت کی بنیاد ہیں،کیونکہ عمل کی صحت وقبولیت اخلاص للہ اور متابعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر ممکن نہیں، گویا اخلاص للہ سے ’’لاالہ إلا اللّہ‘‘ کی شہادت متحقق ہوتی ہے اور متابعت رسول سے ’’محمداً عبدہ ورسولہ‘‘ کی شہادت ثابت ہوتی ہے۔
اللہ کی شہادت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
|