میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں یاد کیا کرتا تھا اور خاموش رہتا تھا۔ اس لیے کہ وہاں ایسے حضرات ہوتے تھے جو عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔[1]
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درخت ہے جس پر پت جھڑ نہیں آتی، مومن بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: بتاؤ کون سا درخت ہے؟ لوگوں نے جنگل کے درختوں پر دھیان دوڑایا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے جی میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، لیکن مجھے شرم آئی کہ میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے نہیں بتایا لوگوں کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ مجلس برخاست ہونے کے بعد میں نے والد سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اگر تم نے بتا دیا ہوتا تو یہ بات میرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہوتی۔[2]
۵۔ ہر موقع پر شرم و حیا کو برقرار رکھنے کی تعلیم دینا:
عمر کے اس مرحلے میں اجتماعی حقوق وآداب کی ادائیگی کے بیان سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ کچھ فطری ونفسیاتی طاقتوں اور جذبات میں تربیتی توازن کے لیے قرآن وسنت کا اصول بیان کریں۔
شرم کی صفت بچوں میں پیدائشی طور پر ہوتی ہے۔ چوتھے مہینے سے اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اور ایک سال بعد بہت حد تک نمایاں ہو جاتی ہیں۔ بچہ جب چہرہ اور آنکھیں گھمانے لگتا ہے یا کچھ اور بڑا ہو کر دوسروں کے گھر یا دوسروں کی گود میں جانے پر یا دوسروں سے بات کرنے پر اس صفت کا پوری طرح ظہور ہوتا ہے۔ پیدائشی شرم کی زیادتی کو معتدل کرنے میں ماحول کا زبردست اثر ہوتا ہے۔ جن بچوں کو دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے کے موقع حاصل ہوتے ہیں ان میں یہ شرمیلا پن کم ہو جاتا ہے۔ شرم کی اس صفت کو شریعت کے تربیتی اصولوں کے سانچے میں ڈھال کر معتدل بنانا ضروری ہے جس کی شکل یہ ہے کہ بچے کو
|