Maktaba Wahhabi

154 - 224
عِشْتُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ أَنْہَی أُمَّتِی أَنْ یُسَمُّوا نَافِعًا وَأَفْلَحَ وَبَرَکَۃً فَإِنَّ الرَّجُلَ یَقُولُ إِذَا جَائَ أَثَمَّ بَرَکَۃُ فَیَقُولُونَ لَا)) [1] ’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ اگر میں زندہ رہا تو میں اپنی امت کو نافع، افلح اور برکت نام رکھنے سے منع کر دوں گا۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی آکر پوچھے: یہاں برکت ہے تو جواب میں کہا جائے، نہیں۔‘‘ اسی طرح نافرمان و سرکش لوگوں کے نام بھی نہیں رکھنے چاہیے جیسے فرعون، قارون، ہامان، شداد، ابو لہب، ابو جہل وغیرہ۔ مگر افسوس کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت تاکید کے باوجود بہت سارے مسلمان فیشن میں جدیدیت کے نام پر نافرمانوں اور شیطانوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ ایسے بھی مسلمان نظر آئیں گے جو موجودہ دور کے فراعنہ وابوجہلوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ ۸۔ قبیح نام تبدیل کرنا: یہاں یہ بھی مسئلہ سمجھتے چلیں کہ اگر کسی نے لا علمی کی وجہ سے اپنی کسی اولاد کا کوئی نامناسب اور غیر شرعی نام رکھ دیا تو معلومات حاصل ہو جانے کے بعد اسے بدل کر دوسرا نام رکھ سکتا ہے۔ کچھ لوگ یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ نام کی تبدیلی کے لیے دوبارہ عقیقہ کرنا پڑے گا۔ حالانکہ یہ ایک باطل اور غلط خیال ہے۔ ذیل میں ہم چند احادیث پیش کر دیتے ہیں جن سے آپ یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ نام کی تبدیلی کے لیے عقیقہ کی شرط نہیں ہے۔ ( (عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ان زینب کان اسمھا برۃ، فقیل: تزکي نفسھا، فسماھا رسول اللّٰہ صلى اللّٰه عليه وسلم زینب)) [2]
Flag Counter