روکتی ہے، جس قوم میں اس کا وجود ہوگا وہ ہر طرح کی برائی وفحاشی اور فتنہ وفساد سے محفوظ رہے گی،آج حیا جیسی انمول دولت ہم سے اٹھ گئی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں طرح طرح کی بیماریاں اور برائیاں وجود پذیر ہو گئی ہیں، خاص طور سے حیا عورتوں کے لیے ایک زیور لاینفک ہے۔ زیورات پہننے سے عورتوں کے حسن وجمال میں نکھار آتا ہے، لیکن جوں ہی عورت زیورات نکال کر پھینک دیتی ہے تو اس کے حسن وجمال اور بناؤ سنگھار میں قدرے نقص آجاتاہے، بعینہ حیا عورت کے لیے ایک زیور ہے،جب تک وہ زیور حیا سے آراستہ وپیراستہ رہے گی تو وہ تما م قسم کی آلائشوں اور برائیوں سے محفوظ رہے گی،لیکن جوں ہی اس سے سبکدوش ہوگی وہ طرح طرح کے فتنہ وفساد میں پھنس جائے گی، شرم وحیا کے اٹھ جانے کا نتیجہ ہے کہ عورتیں کھلے عام سڑکوں، پارکوں، کلبوں، بازاروں اور ہوٹلوں میں بے پردہ گھومتی رہتی ہیں، اپنے رشتہ داروں اورخاندان کے گھروں میں مردوں سے پردہ نہیں کرتیں،حالانکہ وہ جہاں بھی ہوں انہیں پردہ کا دامن ترک نہیں کرنا چاہیے،ہر وقت اسے لازم وملزوم پکڑے رہنا چاہیے،گھر کے ذمہ دار پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر عورتوں کو مردوں سے الگ رکھیں، شادی بیاہ کے موقعوں پر جہاں غیر مردوں سے زیادہ سابقہ ہوتاہے، اس خوشی کے موقع پر وہ شرم وحیا کی چادر کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں۔
۳۔ڈرائیور اور خدمت گزاروں سے ہوشیاری:
یہ ایسے لوگ ہیں جو گھر کے افراد کی طرح رہتے ہیں، گھروں میں بلاجھجک آتے جاتے ہیں، ان سے ہمیشہ باخبر رہا جائے، ان کے شب وروز کے حرکات وسکنات پر کڑی نگاہ رکھی جائے، کیونکہ یہ غیر ہیں دوسروں کی عزت وناموس کی انہیں ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں، نوکر کو نوکر ہی سمجھاجائے، یہ اور بات ہے کہ انہیں تمام قسم کی سہولیات دی جائیں،ان کے ساتھ پیار ومحبت اور شفقت ونرمی سے پیش آیاجائے، ان کی ہر ضرورت پوری کی جائے، لیکن گھریلو معاملات میں حدسے زیادہ قربت نہ رکھی جائے،آج ترقی یافتہ اور خوش حال گھرانوں میں
|