حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوے میں بھیجا۔ اس دوران آپ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کو روٹی پکانا نہیں آتی تھی۔ مدینہ میں ان کی پڑوسی عورتیں ان کا یہ کام کر دیا کرتی تھیں۔ ام درداء کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے بتایا کہ میری بیوی بیمار ہے انہوں نے اسے کھانا کھلایا اور جب تک اس کی بیوی شفا یاب نہیں ہوئی اس کی خیریت معلوم کرتیں اور کھانا کھلاتی رہیں۔[1]
۵۔مثالی کردار کا حامل ہونا:
ابھرتے ہوئے شباب (جوانی) کے اس مرحلے میں ذوق ورجحان کے مطابق نوجوانوں کی کجھ من پسند اور معروف شخصیات ہوتی ہیں، جن سے انہیں حسنِ ظن، حسنِ اعتقاد اور دلی ربط ہوتا ہے۔ جن شخصیات اور کردار کو وہ اپنے لیے مثال اور نمونہ بناتے ہیں اور ان کی مدح میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی مربی کی تربیتی حکمت شناسی کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔ یہ بات تو ہر شبہے سے خالی ہے کہ انسان زندگی کی مثالی بہتری اور دنیا وآخرت میں شاندار کامرانی کے لیے اسلام نے کچھ سنہری اصول عطا کیے ہیں۔ اسلام کی پندرہ صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ اسلامی نظام کے متعلق خالق کائنات نے سارے جہانوں کے لیے رحمت اور خلق عظیم پر ہونے کی گواہی دی ہے۔ مربی کا کام ہے کہ نوجوانوں کو ان کے شعبہ عمل سے متعلق عظیم اسلامی تاریخ شخصیات سے ربط وآگہی بخشے اور ساتھ ہی انہیں یہ اعتقاد کامل بھی عطا کرے کہ ان تمام شخصیتوں کا محور امام الانبیاء، سیدہ البشر، خاتم النّبیین، محسنِ انسانیت، رحمت عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہی ذاتِ گرامی تمام امت مسلمہ اس کے چھوٹے بڑے، پڑھے لکھے اور ان پڑھ جملہ افراد کے لیے مثالی شخصیت ہے۔ ان کا اسوہ اور کردار سب کے لیے مثالی ہے۔ جو تمام محاسن کا جامع ہے۔ اس لیے اتباع اور پیروی
|