Maktaba Wahhabi

201 - 224
زیبائش وآرائش کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، نیز اپنے ہم مزاج سے اور پھر صنف مخالف سے بھی محبت کے مظاہرے فطری ہیں۔ انہیں حد اعتدال میں رکھنا مربی کا فریضہ ہے۔ اس جذبے کو پروان چڑھا کر ہی نوجوانوں کو خدمت خلق کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے، اور یہی وہ زمین ہے جس پر اس دین انسانیت کا بیج اگتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اس جذبے کا زبردست غلبہ پایا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیوہ اور مسکین کے ساتھ جا کر ان کا کام ورا کر دینے میں کوئی عار نہ تھی۔[1] ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ اتنے میں ایک بدو آیا اور آپ کا دامن پکڑ کر کہنے لگا: پہلے میرا ایک کام کر دو۔ آپ مسجد سے باہر تشریف لے گئے اس کا کام پورا کیا پھر آکر نماز ادا کی۔ [2] ایک بار عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں۔ ایک اچھی چادر بچ رہی تو لوگوں نے کہا کہ اپنی بیوی ام کلثوم کو دے دیجئے۔ فرمایا: ام سلیط اس کی زیادہ حق دار ہیں۔ وہ غزوہ احد میں پانی لا لا کر غازیوں کو پلاتی تھیں۔ ایک دفعہ مدینہ سے باہر ایک قافلہ ٹھہرا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہونے کے بوجود اس کی پہرہ داری کر رہے تھے۔ دیکھا کہ ایک بچہ بار بار ماں کی گود میں رو رہا تھا۔ آپ نے جھڑکا تو ماں نے جواب دیا کہ اصل بات تم نہیں جانتے۔ خلیفۃ المسلمین عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ بچے جب ماں کا دودھ چھوڑ دیں تب ان کا وظیفہ بیت المال سے جاری کیا جائے گا۔ میں اسی غرض سے اس بچے کا دودھ جلدی چھڑانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بڑا رحم آیا اور منادی کروا دی کہ پیدائش کے ساتھ ہی بچوں کا وظیفہ مقرر کیا جائے۔
Flag Counter