بچوں پر صرف ہوا ہے۔[1]
جس طرح بچوں کی پرورش اور ان پر خرچ کرنے کا بڑا اجر ہے۔ ان پر تنگی رکھنے سے اتنا ہی بڑا گناہ بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
( (کَفٰی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَنْ یَّحْبِسَ عَمَّنْ یَمْلِکُ قُوتَہٗ۔))[2]
’’کسی کی روزی کا ذمہ دار شخص اگر اس کی روزی روک لے تو یہ اس کے گنہگار ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘
ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
’’میرا پیٹ اس (بچہ) کا ظرف، میری چھاتی اس کا مشکیزہ اور میری گود اس کا گھروندا تھا۔ اب یہ (شوہر) مجھے طلاق دینے کے بعد بچے کو مجھ سے لے لینا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا: جب تک نکاح نہ کر لو بچے کی تم زیادہ حق دار ہو۔‘‘[3]
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک بیوہ عورت سے شادی کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہ کی، کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے والد شہید ہوگئے اور چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے، اگر کم عمر عورت سے شادی کرتا تو نہ وہ انہیں ادب سکھاتی نہ ان کی دیکھ بھال کر سکتی۔ بیوہ کو اس لیے پسند کیا تاکہ ان کی دیکھ بھال کرے، ان کے بالوں میں کنگھی کرے، سر کی جوئیں نکالے اور ان کی اصلاح کرے۔[4]
قریشی عورتوں کی فضیلت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
( (صالح نساء قریش، احناہ علی ولد في صغرہ وارعاہ علی
|