(حدثنا مھدی بن جعفر الرملی حدثنا جعفربن عبد اللّٰہ وکان من أھل الحدیث ثقۃ عن رجل قد سماہ لی قال: جاء رجل إلی مالک بن أنس فقال یا أبا عبد اللّٰہ (الرحمن علی العرش استوٰی) کیف استوٰی؟قال فما رئینا مالکا وجد من شئ کوجدہ من مقالتہ وعلاہ الرحضاء وأطرق وجعلنا ننتظر ما یأمر بہ فیہ قال ثم سری عن مالک فقال :الکیف غیر معقول والإستواء منہ غیر مجھول والإیمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ،وإنی أخاف أن تکون ضالاً ثم أمر بہ فأخرج) [1]
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان، الرحمن علی العرش استوٰی، سے کیا مراد ہے ؟راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام مالک کو کبھی غصّے کے حالت میں نہیں دیکھا جتنا اس بات یہ وہ غصّہ ہوئے انہیں پسینہ چڑھ گیا اور آپ نے سر جھکا لیا اور ہم انتظار کرنے لگے کہ امام اس کے بارے میں کیا جواب دیتے ہیں راوی بتاتے ہیں کہ جب امام مالک رحمہ اللہ کا غصّہ ٹھنڈا ہوا تو فرمایا، اس استواء کی کیفیت عقل میں نہیں آتی، اور استواء تو معلوم ہے لہٰذا اس پر ایمان لانا واجب اور اسکے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، اور مجھے ڈر لگتاہے کہ تو گمراہ ہوجائیگا۔پھر امام (مالک رحمہ اللہ )نے اس کے بارے میں حکم دیا،لھذا اسے نکال دیاگیا۔
|