چوتھی جگہ ارشاد فرمایا:
﴿ قَالَ أَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَاللّٰہ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾[1]
’’کہا (ابراھیم علیہ السلام نے) کیا تم پوجتے ہو انکو جنکو تم تراشتے ہو، حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو سب کو پیدا کیا ہے‘‘
پانچویں جگہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ یَا أَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہ عَلَیْکُمْ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَأَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ﴾[2]
’’اے لوگو! اﷲ کے تم پر جو احسانات ہیں انکو یاد کرو،کیا اﷲ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہو؟ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں پھرے جارہے ہو؟‘‘
پس تقدیر کامعنی یہی ہے کہ انہی چار چیزوں پر ایمان لایا جائے یعنی ساری اشیاء کے بارے میں اﷲتعالیٰ کا علم، سب کی کتابت یعنی لکھنا،سب کے بارے میں اﷲتعالیٰ کی مشیئت وچاہت اور ساری اشیاء کا خلق یعنی پیدا کرنا۔
تقدیر کے ان چاروں درجات پر ایمان لانا اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔
ہم نے تقدیر کا مسئلہ انتہائی اختصار سے قلمبند کیا ہے اسکی مزید تفصیل کیلئے کتب عقائد سے مراجعت کریں۔
تقدیر کے مسئلہ میں دو جماعتیں گمراہ ہوکر تباہ وبرباد ہوگئیں،ایک جبریہ،دوسرے قدریہ۔
جبریہ نے اثبات ِتقدیر میں اتنا غلو کیا کہ انسان کی مشیئت واختیار ہی کے منکر ہوگئے۔جبکہ قدریہ نے افراط سے کام لیکر سرے سے تقدیر ہی کا انکارکردیا۔
|