جس پر ہم اپنی کتاب ’’اضواء التوحید‘‘ کے باب دوم میں کچھ گفتگو کرچکے ہیں۔اسلئے ہم یہاں پر اس مسئلہ کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتے بلکہ طوالت سے بچنے کیلئے ہم یہاں پر صرف اولوالعزم رسولوں کے اسماء اور ان پر بطور دلیل کے قرآن کریم کی چند آیات ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔سو معلوم ہونا چاہیئے کہ جمہور علماء سلف وخلف کے نزدیک اولوالعزم رسول پانچ ہیں اور وہ حسب ذیل ہیں۔
حضرت نوح،حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، اور حضرت محمد علیہم السلام، اس پر تقریباًسارے علماء امت کا اتفاق ہے کہ مندرجہ بالا ان پانچوں رسولوں کا درجہ ورتبہ سارے انبیاء ورسل علیہم السلام سے زیادہ ہے کیونکہ درجے کا بڑھنا عموماً کثرت امتحان وابتلاء پر ہوتا ہے تو مجموعی صورت میں جتنی مصائب ومشاکل اور محن ومشقتیں ان پانچوں پر آئی ہیں کسی اور نبی ورسول پرنہیں آئیں اسلئے ان کے درجے بھی دوسروں سے بڑھ گئے۔چنانچہ اولوالعزم کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے علامہ صابونی لکھتے ہیں :۔
( وإنما سموا بأ ولی العزم لأن عزائمھم کانت قویۃ وإبتلائھم کان شدیداً وجھادھم کان شاقا ًومریراً )[1]
ان کو اولوالعزم اس لئے کہتے ہیں کہ انکے ارادے پختہ،آزمائش سخت اور ان کی محنتیں اور جدوجہد بہت شدید تھیں۔
اور پھر آگے چل کر اوپر والے ان پانچ رسولوں کے محن وشدائد اور امتحان وابتلاء کو ذکر کرنے کے بعد علامہ صابونی ان کے متعلق لکھتے ہیں :۔
(ولھذا استحقوا أن یکونوا قادۃ الأنبیاء وسادۃ الرسل وأن یحملوا
اسی لئے وہ انبیاء کے قائدین اور رسولوں کے سردار بننے کے مستحق قرار
|