نے انکو ہمارے لئے مسخر کردیا اور ہم تو ان پربس رکھنے والے نہیں تھے۔
تو ہم اس سے کہیں گے کہ جس طرح مخلوق کے لئے صفت،ید، اور صفت، استواء، قرآن کریم میں آئی ہے جن کو تم نے تشبیہ کی ڈر سے تأویل کرکے جان چھڑائی تو قرآن کریم ہی میں مخلوق کی صفت سمع وبصر بھی تو آئی ہے جیسے کہ انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعاً بَصِیْرًا ﴾[1]
ہم نے انسان کو ایک ایسے نطفہ سے بنایا جو اجزائے مختلفہ سے مرکب تھا، تاکہ ہم اسکو آزمائیں پس ہم نے اس کو سنتا،دیکھتا بنایا۔
اب دیکھو انسان کیلئے صفت سمع وبصر ثابت ہو رہی ہے تو اب بتائیے،کیا وجہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصر کو تو بغیر کسی تاویل کے حقیقتاً مانا ہے اور اسکی صفتِ ید، اور صفت استواء علی العرش کو تأویل کر کے اپنے ظاہری معانی سے اس لئے پھیردیا تاکہ مخلوق کی صفت ِید،اور صفت، استواء کے ساتھ مشابہ نہ ہو حالانکہ جس طرح مخلوق کیلئے صفت ِید، اور صفتِ استواء ہے جس کی بناء پر آپ نے تشبیہ کے ڈر سے اللہ تعالیٰ کی صفت ِید، اور صفتِ استواء علی العرش کی تأویل کردی تو اسی طرح مخلوق کے لئے صفت سمع وبصر بھی تو ہے،یہاں پر اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصر کی تأویل کیوں نہیں کرتے ؟
اور اگر اس موقع پر وہ اشعری یہ کہے کہ نہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصر کی
|