اجازت دی۔ شیخ عمر بن عبدالکریم ممدوح فرمایا کرتے تھے کہ آپ میں اپنے نانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی برکت حلول کر گئی ہے۔ شیخ موصوف علم حدیث اور رجال میں آپ کے کمال کے قائل تھے۔
شاہ عبدالعزیز قدس سرہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور فرماتے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۔ نیز آپ فرمایا کرتے کہ میری تقریر تو لی اسماعیل نے تحریر رشید الدین[1]نے اور تقوی محمد اسحاق نے۔
شیخنا السید محمد نذیر حسین رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جناب شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے وقت میں امامت نماز پنجگانہ شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ ہی کرایا کرتے تھے۔
سرسید احمد خاں مرحوم آثار الصنادید میں لکھتے ہیں ۔
’’آپ نے حدیث اور علم حدیث کا درس بیس برس تک جناب شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے سامنے بیٹھ کر طلبہ کو دیا۔ اتباع سنت میں سے کوئی کام آپ سے سرزد نہ ہوتا کہ جو فعل رسول مختار نہ ہوتا۔ حق جل و علانے صورت اور سیرت دونوں عطا کی تھیں ۔ ان کی صورت سے آثار صحابیت ظاہر ہوتے تھے اور یقین ہوتا تھا کہ حضرت سید الثقلین صلوات اللہ و سلمہ علیہ و آلہ کی صحبت کا فیض جنہوں نے پایا ہو گا ان کی یہی صورت و سیرت ہو گی۔‘‘
چونکہ آپ کو تدریس اور فتاوی نگاری سے فرصت نہ ملتی تھی اس لئے سوائے مسائل اربعین مایتہ مسائل اور تذکرۃ الصیام کے آپ کی کوئی اور تصنیف یاد گار نہیں پائی جاتی۔
استفتاء کا جواب آپ شیخنا السید محمد نذیر حسین رحمہ اللہ محدث دہلوی سے لکھایا کرتے تھے۔
آپ نے شوال ۱۲۵۸ھ میں ہندوستان سے مکہ معظمہ کو ہجرت کی۔ جب آپ دہلی سے چلے تو پہلی منزل (بستی) نظام الدین میں کی اور تین روز وہاں قیام فرمایا۔
|