مشکوٰۃ اور شرح سفر السعادت وغیرہ نہایت عمدہ خدمتیں ہیں ۔ اگرچہ ان تصانیف میں عموماً اپنے مذہب حنفی کی تائید کی ہے اور شان محدثیت کے لائق فتح الباری وغیرہ کتب کی تحقیقات سے اپنی کتب کو مزین نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی بہت سے مسائل میں فقہائے حنفیہ کے مقابلے میں اہل حدیث کی جانب کو ترجیح دی ہے جو غنیمت ہے۔ آپ کی تحقیقات حدیثیہ کا ماخذ زیادہ تر ابن ہمام کی فتح القدیر اور علامہ عینی کی شرح بخاری ہے۔ جو خود مذہب حنفی کی تقلید کے ملتزم تھے اور شرح مشکوٰۃ میں زیادہ تر طیبی اور مرقاۃ مصنفہ ملا علی قاری رحمہ اللہ وغیرہما سے لیا ہے۔ آپ پر صوفیانہ مذاق غالب تھا۔ قادری طریق پر تھے۔ سید موسیٰ کے مرید تھے جو شاہ جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے تھے۔ اس فن کی خدمت میں بھی کتابیں لکھیں ۔ چنانچہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی کتاب فتوح الغیب کی شرح فارسی ایک مفید یاد گار ہے۔
شروح کتب کی خدمت کے علاوہ آپ نے بعض مستقل کتابیں بھی لکھیں مثلاً مدارج النبوۃ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مبسوط سوانح عمری ہے۔ اس میں صحت روایات کا التزام نہیں کیا۔ بلکہ ہر قسم کی ضعیف و صحیح روایات کو بغیر تنقید کے جمع کر دیا ہے۔ جو بوجہ شیخ صاحب کی قبولیت عامہ کے عام و اعظین کا خزانہ وعظ اور عیسائی وغیرہ معترضین اسلام کے لئے مایہ اعتراضات ہے۔
اسی زمانہ میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کا آفتاب مجددیت بھی نور افگن تھا اور بدعات کے بادل ہوا ہو رہے تھے۔
چونکہ حضرت مجدد صاحب احیائے سنت ورد بدعت میں نہایت سرگرم تھے اس لئے حضرت شیخ صاحب کو آپ سے بعض امور کی وجہ سے جو ان کی نظر میں بوجہ تقلید و اختیار تصوف مروجہ کے معیوب نہ تھے کچھ نقار تھا۔ لیکن اخیر عمر میں جب خدا تعالیٰ
[1]
|