کے بعد سفر حرمین شریفین (حرسہما اللہ و عظم شانہما) سے مشرف ہوئے۔ وہاں کے مشائخ حدیث سے فن حدیث کی تکمیل کی۔ خصوصاً شیخ علی متقی جونپوری مذکور الفوق سے۔ میر علی آزاد بلگرامی ماثر الکرام میں فرماتے ہیں ’’علوم متداولہ کی تحصیل کے بعد حرمین شریفین کی راہ لی اور وہاں کے علماء اور مشائخ سے ملاقات کی خصوصاً شیخ علی متقی رحمہ اللہ سے کہ آپ کی محفل اشرف سے بہت سے فیوض حاصل کئے اور آپ کی مریدی کی سعادت سے بھی فائز ہوئے۔‘‘ (مترجماً و ملخصا ًصفحہ۱۹۴) بعدہ اپنے وطن کی طرف واپس ہوئے اور اجرائے سنت مطہرہ اور رد بدعات میں نہایت سرگرمی سے سعی کرنے لگے حتی کہ اپنے دل میں عہد کر لیا کہ جب تک اپنی قوم کی پیشانی سے بدعت کا داغ نہ دھولوں گا دستار سر پر نہ رکھوں گا۔ (سبحان اللہ)
۹۸۰ھ میں جب اکبر بادشاہ ہند نے گجرات کو مسخر کر لیا اور پٹن میں جو شیخ صاحب ممدوح کا وطن تھا شیخ صاحب سے ملاقات کی۔ اور حالات معلوم کئے تو شاہ قدر شناس نے اپنے دست خاص سے حضرت شیخ صاحب کے سر پر دستار رکھی اور کہا کہ آپ کے دستار (مبارک) کو ترک کر دینے کا باعث ہمارے گوش گذار ہوا ہے۔ دین اسلام کی نصرت آپ کے ارادے کے موافق ہماری عدالت کا فرض ہے۔
اسی سال میں گجرات کی حکومت خان اعظم مسند میرزا عزیز کوکلتاش کے سپرد کی گئی چنانچہ اس کی اعانت و توجہ خصوصی سے بہت سی رسوم و بدعات کی بیخ کنی ہو گئی۔ لیکن ان کے تھوڑی دیر بعد حکومت عبدالرحیم خاں خانخاناں کو دی گئی جس کی حمایت میں فرقہ مہدویہ یعنی سید محمد جونپوری مدعی مہدویت کے پیرو پھر جاگ اٹھے۔ شیخ صاحب ممدوح نے پھر دستار اتار دی اور دارلخلافہ اکبر آباد یعنی آگرہ کا قصد کیا۔ تا کہ سارا ماجرا خود بادشاہ کے کانوں تک پہنچائیں ۔ مخالفین کی بھی ایک جماعت پیچھے ہو لی۔ چنانچہ انہوں نے رستہ ہی میں آپ کو اوجین اور سارنگپور کے درمیان گرا کر شہید کر دیا۔ یہ واقعہ جاں گزا ۹۸۶ھ میں ہوا۔
تصانیف: شیخ مرحوم نے علم حدیث کی نہایت قابل قدر خدمت کی۔ راویان
|