سے صفحہ سفینہ (صحیفہ) پر نقل کرنا شروع کیا۔ چنانچہ خاتمتہ الحفاظ رحمہ اللہ جن کا پایہ علوم حدیث میں محتاج بیان نہیں ۔ ’’مقدمہ فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں ۔
اعلم علمنی اللّٰہ و ایاک ان اثارالنبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم لم تکن فی عصر النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم و فی عصر اصحابہ و کبار تبعہم مدونۃ فی الجوامع ولا مرتبۃ لامرین۔ احدھما انھم کانوا فی ابتداء الحال قد نھوا عن ذلک کما ثبت فی صحیح مسلم خشیۃ ان یختلط بعض ذالک بالقران العظیم وثانیہما لسعۃ حفظہم و سیلان اذھانہم ولان اکثرھم لا یعرفون الکتابۃ ثم حدث فی اواخر عصر التابعین تدوین الاثار و تبویب الاخبار لما انتشر العلماء فی الامصار و کثر الابتداع من الخوارج و الروافض و منکر الاقدار(مقدمہ فصل اول مطبوعہ دہلی صفحہ۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار (اقوال و افعال) آپ کے عہد میں اور عصر صحابہ رضی اللہ عنہ میں اور کبار تابعین رحمہ اللہ کے زمانہ میں دو وجہ سے باترتیب لکھے ہوئے جمع نہ تھے۔ اول اس وجہ سے کہ شروع شروع میں صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا تھا جیسا کہ صحیح مسلم میں ثابت ہے۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ بعض احادیث قرآن کریم سے مل نہ جائیں دوسرے اس وجہ سے کہ ان کے حافظے بہت مضبوط اور وسیع تھے اور ان کے ذہن بہت رواں تھے۔ نیز اس لئے کہ اکثر ان میں سے کتابت جانتے بھی نہ تھے۔ پھر تابعین کے پچھلے زمانہ میں آثار کی باترتیب کتابت اور اخبار (احادیث) کی باقاعدہ تبویب شروع ہو گئی۔ جب کہ (دور نزدیک کے) شہروں میں علماء کثرت سے پھیل گئے اور خارجیوں اور رافضیوں اور تقدیر کے منکروں کی بدعتیں کثرت سے شائع ہونے لگیں ۔
خاتمتہ الحفاظ رحمہ اللہ کی ان چند سطروں میں ہمارے مذکورہ بالا طویل مضمون کے اہم
|