ہے۔ حتی کہ بعض متاخرین متکلمین نے تشدد کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی حنفی ۔ شافعی ہو جائے تو اس کو سزا دی جائے۔ اور یہ شریعت بنانا ہے اپنے نفسوں سے کیونکہ یہ التزام اس میں غلبہ حقیقت کے ظن سے خالی نہیں ۔ پس نہ چھوڑا جائے۔ ہم (مولانا بحرالعلوم) کہتے ہیں کہ ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ کیونکہ کوئی شخص کبھی لازم پکڑتا ہے دو متسادی امروں میں سے ایک کو اپنے فی الحال نفع کے لئے اور اپنے آپ سے دفع حرج کے لئے۔ اور اگر اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ اعتقاد (التزام مذہب معین) کسی شرعی دلیل سے پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ ایک ہوس ہے اس معتقد کی ہو سات میں سے۔ اور ہوس پر قائم رہنا واجب نہیں ۔ پس (اے قاری) تو (اس کو) سمجھ اور (اس پر) ثابت رہو۔ اور (یہ بھی) کہا گیا ہے کہ نہیں واجب قائم رہنا اور انتقال کرنا درست ہے۔ پس یہی وہ حق ہے جو اس بات کے لائق ہے کہ اس پر ایمان اور اعتقاد رکھا جائے۔ لیکن مناسب نہیں کہ یہ انتقال بطور تلہی (کھیل) کے ہو۔ کیونکہ تلہی (کھیل) قطعاً حرام ہے۔ مذہب میں ہو یا اس کے سوا میں ۔ کیونکہ نہیں کوئی واجب مگر جس کو اللہ تعالی نے واجب کیا۔ اور حکم اسی کا ہے۔ اور اس نے نہیں واجب کیا کسی پر کہ کوئی اماموں میں سے کسی خاص امام کا مذہب لازم پکڑے پس اس کو واجب گرداننا نئی شریعت ایجاد کرنا ہے۔ اور (اے قاری) تجھے جائز ہے اس بات سے استدلال کرنا کہ اختلاف علماء کا ایک رحمت ہے نص سے۔ اور آسائش ہے خلقت کے حق میں ۔ پس اگر کسی خاص مذہب پر عمل کرنا لازم کیا جائے تو یہ تکلیف اور شدت ہو گی۔ اور (یہ بھی) کہا گیا ہے کہ جس نے لازم گردانا ہے وہ مثل اس کی ہے جس نے لازم نہیں گردانا پس وہ نہ رجوع کرے اس سے جس میں اس نے اس کی تقلید لازم پکڑی۔ اور اس کے سوا میں جس کی چاہے تقلید کر لے اور اسی پر (امام) سبکی ہے شافعیہ میں سے۔ اور تحریر (ابن ہمام رحمہ اللہ ) میں ہے
|