Maktaba Wahhabi

69 - 411
نہیں دیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد سنا کہ سلطان محمد پھر مرتد ہوگیا، چونکہ جو آزادی عیسائیت میں ہے وہ اسلام میں کہاں؟ اس لیے دوبارہ مرتد ہو کر پادری صاحبان کو خوش کرنے کے لیے کوئی دوسرا رسالہ لکھا ہوگا جس کا آپ نے ذکر فرمایا۔ مجھ کو اس کا حال پادریوں کی معرفت معلوم ہوا تھا، مگر میں نے زیادہ جستجو نہ کی۔ خدا کا شکر ہے کہ شیر پنجاب نے اس کی طرف توجہ کی اور دندان شکن جواب دینے کے لیے قلم اٹھایا۔ خدا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ ’’غالباً بمبئی کے حالات لکھنے کی اُس نے اس لیے جرأت کی ہوگی کہ زمانہ گزر گیا، انجمن ضیاء الاسلام والے مر مرا گئے ہوں گے، جو چاہوں لکھ کر پادریوں کو خوش کر دوں۔ یہ اس کو خبر نہ ہوگی کہ بفضلہ تعالیٰ میں زندہ ہوں۔ اور پادری جوزف بہاری لال، اگرچہ مشن سے علیحدہ ہیں تاہم وہ ابھی تک عیسائی ہیں، سلطان محمد کی طرح زر کے طالب نہیں ہیں، میرے بیان کی تصدیق کریں گے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے درست ہے۔ مجھ کو تعجب تو یہ ہوا کہ سلطان محمد مسیحی ہو کر سفید جھوٹ لکھنے پر کیوں دلیر ہوا؟ جھوٹے پر خدا کی لعنت۔ آمین۔ (عبدالرؤف خان از بمبئی)‘‘ (جواباتِ نصاریٰ، ص: 87 تا 90) مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے پادری سلطان محمد خاں کے ساتھ بعض مناظرے بھی ہوئے جن میں پادری سلطان محمد خاں کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مناظرہ 27، 28؍ فروری 1926ء کو انجمن اہلحدیث گوجرانوالہ کے سالانہ جلسہ پر ہوا۔ مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’مسئلہ توحید‘‘ پر تقریر فرمائی۔ جس پر عیسائیوں کو مناظرہ کا وقت دیا گیا۔ حاضری 8، 10 ہزار سے کم نہ تھی۔ بعض یورپین عیسائی بھی یہ
Flag Counter