چکے تھے کہ جو کوئی اس علم کو حاصل کرے اس کو آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور اپنے نفسوں کواس کے عوض عذاب میں پھنسا کر جو کچھ وہ حاصل کرتے تھے وہ برا تھا کاش وہ علم رکھتے یعنی علم پر عمل کرتے، علم رکھ کر عمل نہ کرنے والا فی الحقیقت بے علم ہے اور اگر وہ بجائے تعلیم سحر کے پختہ ایماندار بنتے اور یعنی مناکیر اور مناہی سے بچتے رہتے تو اس کا بدلہ جو اللہ کے ہاں سے ان کو ملتا وہ سب سے اچھا ہوتا کاش وہ جانتے ہوتے۔
پادری صاحب نے اس رکوع کے ترجمے میں کئی ایک غلطیاں کی ہیں۔ ترجمہ ان کا حاشیہ پر ہے[1] اور اغلاط درج ذیل ہیں:
|