کام سے ناراض ہے کہ اس نے پیغام رسالت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں اتارا وہ یقینا اپنا ہی کچھ کھوئے گا کیونکہ اس جبرئیل نے اس پیغام قرآن کو تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے نہ کہ اپنے اختیار یااپنی رائے سے تصدیق کرنے والا ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے (اتری) ہیں ہدایت اور خوشخبری ہے ایمانداروں کے لئے یہ تو ہے ا س کتاب کا مضمون اس لئے جو کوئی اپنے وہم میں اللہ کا ، فرشتوں کا اللہ کے رسولوں کا جبرئیل کا اور میکائیل کا دشمن ہے تو اس کی بھی خیر نہیں کیونکہ اللہ ایسے شریر کافروں کا دشمن ہے۔ بھلا قرآن کے آنے سے ان کو جبرئیل کی دشمنی کیوں سوجھی؟ یہ فعل تو ہمارا ہے۔ ہم (خدا) نے اے رسول! تمہاری طرف کھلے کھلے اور واضح احکام نازل کئے ہیں تاکہ تم لوگوں کو نیک و بد کی نصیحت کرو ۔ خوش قسمت لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور بدکار لوگ ان سے انکار ہی کرتے ہیں۔ ان یہودیوں کا حال کچھ نہ پوچھو یہ تواپنے مطلب کے بندے ہیں کہ وقت حاجت غلام، بعد انقضائے حاجت مفرور۔ کیا یہ بات کسی سے مخفی ہے کہ جب کبھی انہوں نے احکام کی اطاعت کا وعدہ کیا عملی صورت میں ایک فریق نے اس کو پھینک دیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر ان میں سے کسی دینی بات پر یقین ہی نہیں رکھتے ان کا یقین یہ ہے کہ مذہبی خیالات سب بناوٹی ہیں۔ اور آج کل کی بھی سن لو کہ جب ان کے پاس یہ رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے آیا جو ان کے ساتھ والی کتاب کے نزول کی تصدیق کرتا ہے تو بجائے طاعت کرنے کے ان کتاب والوں میں سے ایک جماعت (علمائے) نے اپنی الٰہی کتاب کو پیٹھ پیچھے ایسا پھینک دیا یعنی نسیا منسیا کردیاگویا جانتے ہی نہیں اوربجائے
|