Maktaba Wahhabi

368 - 411
ہے۔ چنانچہ خود پادری صاحب کے الفاظ یہ ہیں: ’’وہ (روح القدس )ذات الٰہی کا اقنوم ثالث یعنی خود خدا ہے۔‘‘(سلطان ص:410) اس لئے آپ نے اس امر پر خاص توجہ فرمائی ہے کہ قرآن سے ان کا مزعومہ روح القدس ثابت ہو جائے۔ کہیں کسی تفسیر کی تلاش ہورہی ہے، کہیں کسی صوفی سے ملاقات کی جارہی ہے، مگر قرآن شریف سے نہیں پوچھا جاتا کہ روح القدس سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اسی رکوع سے اگلے رکوع میں ارشاد ہے: { قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ} [البقرۃ: 97] ’’اے رسول! جبرئیل نے قرآن مجید تیرے دل پر نازل کیا ہے۔‘‘ اس آیت میں قرآن اتارنے والا جبرئیل کو قرار دیا ہے۔ دوسری آیت میں بتبدیل الفاظ یوں فرمایا: { قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ} [النحل: 102] ’’اس قرآن کو روح القدس نے تمھارے پروردگار کی طرف سے اتارا ہے۔‘‘ ان دونوں آیات کو ملانے سے صاف سمجھا گیا کہ قرآن کے محاورے میں جبرئیل اور روح القدس سے ایک ہی چیز مراد ہے، دگر ہیچ۔ ہمارا یہ ثبوت بنصوص قرآنی سن کر تو پادری صاحب یہ نہ کہیں گے: ’’تمام مفسرین نے بلا تحقیق اور تدقیق اور بغیر کسی لغوی اور عقلی دلیل کے روح القدس سے جبرئیل سمجھا ہے۔‘‘ (ص:407) کیونکہ ہم نے مفسرین کے قول کی دلیل قرآن شریف سے بتادی ہے۔ فاندفع ما قیل۔
Flag Counter