لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھے اٹھیں اور اٹھنے کے بعد قبروں سے نکل کر اور مقدس شہروں میں جاکر بہتوں کو نظر آئیں۔ (انجیل متی باب 27)
یہ اور اس قسم کے واقعات جو بعد مسیح وقوع پذیر ہوئے ہیں ہمارے دعوے پر شاہد عدل ہیں کہ یہ اناجیل وہ انجیل نہیں جس کی تصدیق قرآن مجید نے فرمائی ہے۔
ناظرین کرام! باوجود ان تصریحات کے جن سے مروجہ تورات وانجیل کی حقیقت آشکارا ہے حضرات پوادر صاحبان قرآن کی آیات سے مروجہ تورات و انجیل پر محض اشتراک اسمی کی وجہ سے شہادت لاتے ہیں۔ چنانچہ پادری سلطان صاحب لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کو بائبل پر ایمان لانا فرض ہے۔ تورات و انجیل وغیرہ صحف انبیاء پر مسلمانوں کو ایمان لانا فرض ہے:
{ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ} [العنکبوت: 46]
وغیرہ۔‘‘ (ص: 269)
پادری صاحب! اگر ہماری معروضہ بالا تقریر پر جانبداری سے خالی ہوکر غور کریں گے تو آپ کو {اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ} کی تفسیر کے لیے {مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی} وغیرہ آیات مل جائیں گی جن کو سامنے رکھ کر آپ انصاف سے جان جائیں گے کہ قرآنی تورات، انجیل اور مروجہ تورات و انجیل میں اشتراک اسمی تو ہے وحدت حقیقت نہیں۔ اس مرحلہ پر پہنچ کر آپ کے قلم سے خود بخود نکل آئے گا
شیر قالین دگر است وشیر نیستان دگر است[1]
جہاں کہیں مسلمانوں کو تورات و انجیل پر ایمان لانے کا حکم ہے وہاں وہی تورات ، انجیل مراد ہے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ انبیاء کرام علیہ السلام پر اتری تھیں۔ نہ وہ جو
|