Maktaba Wahhabi

278 - 411
تصدیق بولیں تو الزام نہیں، ٹھیک اسی طرح قرآن شریف کی اصطلاح میں تورات دومعنی سے ہے ایک خاص (قرآن مجید کی مصدقہ) دوسری عیسائیوں کی مسلمہ جو پہلی سے عام ہے۔ مصدقہ قرآن جزء کی طرح کل میں داخل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اصطلاحوں میں نسبت عموم خصوص مطلق ہے۔ پس خاص کی تصدیق سے عام کی تصدیق لازم نہیں آتی۔ فلیتفکر پادری صاحب لکھتے ہیں: ’’مسئلہ تحریف میں ہم {یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ} پر مفصل بحث کریں گے۔‘‘ (ص: 147) ہم بھی آپ کی خدمت میں وہاں حاضر ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ نہیں معلوم تم کو ماجرائے دل کی کیفیت سنائیں گے تمہیں ہم ایک دن یہ داستاں پھر بھی {لاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ۔۔۔} کی تفسیر: {لاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً} کی تفسیر میں پادری صاحب نے جو لکھا ہے وہ بعض علمائے اسلام کا قول ہے مگر ہماری تحقیق اور ہے۔ پادری صاحب لکھتے ہیں: ’’یہ عجیب جملہ ہے جس سے الکتاب (بائبل) کی شانِ عظمت وجلالت ظاہر ہوتی ہے ۔ یہودیوں کا یہ دستور تھا کہ وہ صحف مطہرہ کی تعلیم اُجرت لے کر دیا کرتے تھے ، جس سے احکام الٰہی کی تبلیغ ایک خاص طبقہ میں محدود رہ جاتی تھی، غربا اور عامی اس سے محروم رہ جاتے تھے اور یہ منشا الٰہی کہ اس کی تعلیم عام ہو فوت ہوجاتا تھا۔ اس لیے یہودیوں سے کہا گیا کہ بدبختو تم کیوں میری آیتوں کو حطام دنیا کے بدلے میں بیچتے ہو۔ مفت کیوں نہیں پڑھاتے ہو۔‘‘ (ص: 147، 148)
Flag Counter