Maktaba Wahhabi

277 - 411
حصہ ایسا ہے جسے مسلمان بما تحت اس حکم کے ماننے کے مامور ہیں۔ وہ دیکھنا ہو تو کتاب استثناء باب 5 میں ملاحظ کریں۔ جو ہم ’’اہلحدیث‘‘ مورخہ 5؍ اگست 32ء میں مکمل نقل کر چکے ہیں۔ وہی حصہ ہے جس کی بابت قرآن شریف کو {مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ} یا {مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ} کہا گیا ہے۔ اس کے سوا جو باقی حصہ ہے وہ بشہادتِ قرآن مصدقہ نہیں۔ ہاں ہم آپ کو اس سے منع نہیں کرتے کہ آپ اس کو یشوع بن نون کی بالالہام جمع کردہ مانیں، ہزار دفعہ مانیں۔ لیکن مسلمانوں کو مجبور نہ کریں کہ وہ یشوع کے جمع کردہ واقعات موسویہ کو موسوی الہام تسلیم کریں۔ کیونکہ قرآن مجید میں یشوع کی جمع کردہ کتاب کی تصدیق نہیں آئی، تورات کی آئی ہے، جس کے متعلق یہ الفاظ ہیں: { وَ کَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْعِظَۃً وَّ تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْئٍ} [الأعراف: 145] ’’ہم (خدا) نے موسیٰ کو پتھر کی الواح پر ہر قسم کی نصیحت بالتفصیل لکھ دی تھی۔‘‘ بعینہٖ یہی مضمون بائبل میں مذکور ہے: ’’خداوند نے ۔۔۔ پتھر کی دو لوحوں پر لکھا اور میرے سپرد کیا۔‘‘ (تورات کی پانچویں کتاب استثنا باب5) پادری صاحب! ہم ایک اور طرح سے آپ کی خدمت میں اپنا مافی الضمیر پیش کرتے ہیں۔ بغور سنیے! اہل منطق کے ہاں تصور کے دو معنے ہیں: 1تصور مرادف علم۔ یہ مقسم ہے، جس کے اقسام تصور اور تصدیق ہیں۔ 2تصور ساذج۔ یہ قسیم تصدیق ہے اور خاص ہے۔ ان دونوں میں نسبت عموم خصوص مطلق ہے۔ اہل منطق اس اصطلاح کو بتاکر حسب موقع تصور کالفظ بولیں تو اعتراض نہیں۔ مرادف علم بولیں تو سوال نہیں، بمقابلہ
Flag Counter