Maktaba Wahhabi

161 - 411
{ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یُشْھِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَ ھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ}[1] [البقرۃ: 204] اس آیت میں مذکور ہے کہ منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دیتے تھے۔ رسول سے بحیثیت رسالت جو برتائو ہوتا ہے وہ اللہ سے ہوتا ہے۔ { مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ} [النسائ: 80] انھی معنی کا اظہار کرتی ہے۔ {مَرَضٌ} سے مراد ہے اسلام کے برخلاف دلوں میں کھوٹ یاکینہ یا انکار۔ {السُّفَھَآئُ} جمع سفیہ کی ہے۔ منافق ،صحابہ کو سفیہ کہتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک عقلمندی کا اصول یہ تھا کہ انسان ہر طرف ملتا رہے بامسلماں اللہ اللہ بابرہمن رام رام ’’شیاطین‘‘ سے مراد ان کے سرکردہ لوگ ہیں جن کے دبائو یا لحاظ سے وہ گمراہی اختیار کرتے تھے۔ {مُسْتَھْزِئُ وْنَ} کے معنی ہیں مسخری کرنے والے۔ {یَسْتَھْزِیُٔ} مصدر استھزاء سے ماخوذ ہے۔ مگر اس کے معنی ہیں مسخری کی سزا دینا۔ عرب کہاکرتے ہیں: ’’کما تدین تدان‘‘ جیسے کرے گا ویسے بھرے گا۔ {یَمُدُّ ھُمْ} کے معنی ہیں ان کو مہلت دیتا ہے۔ {یَعْمَھُوْنَ} زندگی کے چکر میں گھومتے ہیں۔ {صُمٌّ} خبر مبتدا محذوف کی أي: ھم صم۔ {اَوْ کَصَیِّبٍ} أي: مثلھم کأھل المطر النازل من السحاب۔ {اَوْ} برائے تنویع تفہیم کے لیے ہے۔ تردید کے لیے نہیں۔ یعنی مخاطب کو سمجھایا جاتا ہے کہ منافقوں کی مثال تم یوں سمجھو یا یوں۔ {السَّمَآئِ} سے مراد سحاب (بادل) ہے۔ ترجمہ:’’بعض لوگ جن کو عرف شرع میں منافق کہا جاتا ہے وہ لوگ ہیں جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم حسب تعلیمِ قرآن اللہ پر اور پچھلے دن
Flag Counter