Maktaba Wahhabi

355 - 503
ج: معاویہ رضی اللہ عنہ کا زیاد بن ابیہ کو اپنے نسب میں شامل کرنا:… طبری ۴۴ھ کے واقعات کے تحت رقمطراز ہیں: اس سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن سمیہ کے نسب کو اپنے باپ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے نسب میں شامل کیا۔[1]جب زیاد معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو اس وقت بنو عبدالقیس کا ایک آدمی اس کے ساتھ تھا، اس نے زیاد سے کہا: ابن عامر کا مجھ پر ایک احسان ہے، اگر اجازت دیں تو میں اس سے ملاقات کر لوں، زیاد نے کہا: اس شرط پر کہ تیرے اور اس کے درمیان جو باتیں ہوں، مجھے ان سے آگاہ کرنا ہو گا، اس نے یہ شرط تسلیم کر لی تو اسے اس کی اجازت دے دی گئی۔ وہ ابن عامر سے ملا تو اس نے کہا: ابن سمیہ میرے کاموں پر اعتراض کرتا اور میرے کارندوں کی برائیاں بیان کرتا ہے۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں قریش سے ایسے پچاس آدمی لے کر آؤں گا جو قسم اٹھائیں گے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے سمیہ کی صورت تک نہیں دیکھی۔[2] جب یہ آدمی واپس آیا تو زیاد نے اس سے ملاقات کے بارے میں سوال کیا تو اس نے پہلے تو اسے کچھ بتانے سے انکار کیا مگر آخر کار اسے بتانا ہی پڑا۔ زیاد نے اس کی خبر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دربان کو حکم دیا کہ جب عامر ادھر آئے تو اس کی سواری کو پہلے دروازے سے ہی واپس کر دینا، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، ابن عامر نے اس کی شکایت یزید سے کی، یزید نے پوچھا: تم نے زیاد کا بھی ذکر کیا تھا؟ اس نے کہا: ہاں۔ یہ سن کر یزید اسے اپنے ساتھ لے کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عامر کو دیکھتے ہی مجلس برخاست کر دی اور خود محل میں چلے گئے۔ اس پر یزید نے ابن عامر سے کہا: تم ادھر ہی بیٹھو وہ کب تک اپنی مجلس کو چھوڑ کر گھر میں بیٹھے رہیں گے۔ جب انہیں بیٹھے بیٹھے کافی دیر ہو گئی تو معاویہ رضی اللہ عنہ گھر سے باہر آئے ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے دروازوں کو پیٹتے جاتے تھے اور ساتھ ہی کسی کا یہ شعر پڑھتے جاتے تھے: لنا سیاق و لکم سیاق قد علمت ذلکم الرفاق[3] ہماری راہ اور، اور تمہاری راہ اور، اس بات کو سبھی لوگ جان چکے ہیں۔ پھر بیٹھ گئے اور ابن عامر سے فرمایا: کیا تم نے زیاد کے بارے میں زبان کھولی ہے۔ خبردار! و اللہ! تمام عرب اس بات سے آگاہ ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ باعزت میں تھا اور پھر اسلام نے میری عزت میں مزید اضافہ کر دیا۔ مجھ میں کوئی کمی ایسی نہیں تھی جو زیاد کی وجہ سے پوری ہو گئی ہو یا میری ذلت عزت میں تبدیل ہو گئی ہو، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ میں نے اس کو جس چیز کا حق دار پایا وہ اسے دے دی۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب زیاد کے نسب کو اپنے باپ کے نسب کے ساتھ ملایا تو انہیں اس بات سے متہم کیا گیا
Flag Counter