Maktaba Wahhabi

457 - 503
زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید کر دیا جاؤں۔‘‘[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ارشاد گرامی ہے: ’’جنت میں داخل ہونے والا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو دنیا میں واپس جانا چاہتا ہو چاہے اسے دنیا کی ساری دولت مل جائے بجز شہید کے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور اسے دس بار شہید کیا جائے کیونکہ وہ وہاں شہادت کی عزت دیکھتا ہے۔‘‘[2] پہلے مسلمان اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ان آیات و احادیث سے متاثر ہوئے، بڑی عمر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب جہاد کے لیے نکلتے اور پھر اس میں عملاً حصہ لیتے تو لوگ ان پر ترس کھاتے اور انہیں جہاد میں حصہ نہ لینے کے بارے میں کہتے اس لیے کہ وہ معذور ہیں مگر وہ جواب دیتے کہ سورہ توبہ انہیں جہاد ترک کر کے گھر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی، اگر وہ جہاد سے پیچھے رہے تو انہیں اپنے بارے نفاق کا ڈر ہو گا۔[3] علماء، فقہاء اور زہاد کا ان آیات و احادیث پر مبنی لوگوں کی تربیت کرنے میں بھی بڑا کردار رہا ہے۔ ان علماء میں معمر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے جیسا کہ ابو ایوب انصاری اور ابن عمر و دیگر رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے ابو مسلم خولانی۔ ان کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ امت اسلامیہ کی بقاء کے لیے ازحد ضروری ہے، لہٰذا انہوں نے بلاد شام، شمالی افریقہ، خراسان، سجستان اور سندھ کی فتوحات میں یہ فریضہ سرانجام دیا، اور ان کی طرف سے اس فریضہ کی ادائیگی پر بہت سارے ثمرات مرتب ہوئے، مثلاً: امت اسلامیہ میں بشری قیادت کی اہلیت پیدا ہوئی، کفار کا رعب و دبدبہ ختم ہوا اور انہیں کمزور کر دیا گیا۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا ہوا اور لوگوں پر دعوت اسلامیہ کی سچائی ثابت ہوئی جس کی وجہ سے وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے جس سے مسلمانوں کی عزت میں مزید اضافہ ہوا اور کافر مزید ذلیل ہو گئے، اپنے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی صفوں میں وحدت پیدا ہوئی اور انہوں نے لوگوں کو اسلام کے نور اور اس کے عدل و رحمت کے ساتھ سعادت مند بنایا۔[4] ثالثاً:… فتوحات معاویہ رضی اللہ عنہ میں بعض سنن الٰہیہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت کی فتوحات اسلامیہ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے والا معاشروں، گروہوں اور ممالک میں کار فرما بعض سنن الٰہیہ کا ملاحظہ کرتا ہے۔ جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ اتحاد و اجتماعیت میں سنۃ اللہ:… جو فتنہ شہادت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر منتج ہوا وہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ارتداد کے بعد فتوحات اسلامیہ کی تحریک کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوا، شہادت عثمان رضی اللہ عنہ سے جہاد رک گیا اور ایک ایسا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا جس کے دوران مسلمانوں کی تلواروں کا رخ آپس میں ایک دوسرے کی طرف تھا قریب تھا کہ وہ امت کو تباہی سے دوچار کر دیتا اگر رحمت ایزدی
Flag Counter