Maktaba Wahhabi

497 - 503
مسلمانوں کے ساتھ مشاورت کرنے کے حوالے سے خلفائے راشدین بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ خلفائے راشدین کی امامت کے انعقاد کی کیفیت اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہے: ۱۔ بیعت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا طریقہ انعقاد: اہل حل و عقد نے سقیفہ بنو ساعدہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت خاصہ کی پھر دوسرے دن انہوں نے انہیں لوگوں کے سامنے نامزد کیا اور امت اسلامیہ نے مسجد نبوی میں ان سے بیعت عامہ کی۔[1] سقیفہ بنو ساعدہ میں جو گفتگو ہوئی اس سے چند اصول کھل کر سامنے آئے، جن میں سے اہم تر یہ ہیں: امت کی قیادت صرف منتخب شدہ ہو گی، بیعت اختیار و انتخاب اور قیادت کے قانونی ہونے کا اصل اصول ہے۔ یعنی خلافت کے منصب پر وہی شخص فائز ہو سکتا ہے جو دینی اعتبار سے مضبوط اور انتظامی اعتبار سے زیادہ باصلاحیت ہو۔ خلیفہ کا انتخاب اسلامی، ذاتی اور اخلاقی اصولوں کے مطابق ہو گا۔ یعنی خلافت نسبی یا قبائلی وراثت کے اصول کے ضمن میں نہیں آتی۔ سقیفہ بنو ساعدہ میں ہونے والے مذاکرات مسلمانوں میں ذاتی امن کے اصول پر کامیاب ہوئے، ایسا اصول امن جس میں نہ تو کوئی فتنہ و فساد ہو اور نہ عہد شکنی، نہ کوئی سازش ہو اور نہ ہی نقض اتفاق۔[2] ا: سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع نے یہ قرار داد پاس کی کہ نظام حکومت یا دستور حکومت اس شوریٰ کے اصول کی تطبیق کرتے ہوئے آزاد شوریٰ کا تقرر کرتا ہے جو نص قرآن حکیم سے ثابت ہے، لہٰذا یہ اصول اجماعی ہے اور اس اجماع کی دلیل شوریٰ کو فرض قرار دینے والی قرآنی نصوص ہیں، یہ پہلا دستوری اصول ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرار پایا، یہ اجماع کتاب و سنت کی ان نصوص کی تائید و تطبیق تھی جو شوریٰ کو واجب قرار دیتی ہیں۔ ب: سقیفہ کے دن یہ بھی قرار پایا کہ اسلامی حکومت کے رئیس کا انتخاب اور اس کے اختیارات کی تحدید کا شوریٰ کے ذریے اتمام ضروری ہے۔ یہ دوسرا دستوری اصول تھا جسے اجماع نے قرار دیا اور یہ کبھی مذکورہ الصدر کی طرح اجماعی قرار داد تھی۔ ج: گزشتہ دونوں اصولوں کی تطبیق کرتے ہوئے سقیفہ کے اجتماع نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دولت اسلامیہ کے پہلے خلیفہ کے طور پر منتخب کیا[3] مگر یہ نامزدگی بیعت عامہ کے بعد ہی درست قرار پائی، یعنی جب جمہور مسلمانوں نے دوسرے دن مسجد نبوی میں اس انتخاب سے موافقت کر لی اور انہوں نے اس بیعت کے لیے ان شرائط کو قبول کر لیا[4] جن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مشہور خطبہ میں فرمایا تھا: مجھے تمہارا سردار بنایا گیا ہے، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں اچھے اعمال کروں تو میری مدد کرنا تم پر فرض ہے اور اگر میں کوئی
Flag Counter