Maktaba Wahhabi

403 - 503
انہوں نے ۴۳ھ[1] کو سمندر میں بُسر بن ارطاۃ کی موسم سرما کی فوج کے ساتھ اطلاعاتی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور پھر اس کے بعد ۴۶ھ کو سرزمین روم میں مالک بن عبداللہ کے موسم سرما کے دستے اور عبداللہ بن قیس فزاری کے موسم گرما کے دستے کو بھیجا۔ مزید برآں عقبہ بن عامر جہنی، عبداللہ کرز بجلی، عبداللہ بن یزید بن شجر رہاوی کے موسم سرما اور گرما کے فوجی دستوں کو استعمال کیا گیا[2] اور موسم سرما و گرما کے فوجی دستوں کے نظام کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھا گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک واضح ہدف تھا اور وہ تھا قسطنطنیہ پر دباؤ ڈال کر دولت بیزنطیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرنا جو کہ اس پر قبضہ کرنے کی تمہید تھی اور شاید ان کا یہ بھی مقصد ہو کہ قسطنطنیہ پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد دولت بیزنطیہ پر قبضہ جما لیا جائے، اس لیے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ یہ سرکش دارالحکومت دولت بیزنطیہ کے اعصاب کا مرکز اور اموال و رجال کا مستقر ہے، اور سوچ و بچار کرنے والے ارباب دانش و بینش بھی ادھر ہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، اگر ان کے ہاتھوں قسطنطنیہ کا سقوط ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجہ کے طور پر ساری کی ساری دولت بیزنطیہ بے بس ہو کر رہ جائے گی۔ اس وقت مسلمانوں کا اہل فارس کے ساتھ تجربہ ان کے سامنے تھا، دار الحکومت مدائن کے مسلمانوں کے ہاتھوں سقوط کے بعد اہل فارس بے یقینی کا شکار ہو گئے تو انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور ان کی ریاست ختم ہو گئی۔ لہٰذا اگر وہ بیزنطی دار الحکومت کو گرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ریاست کے سقوط کی وارننگ ہو گی اور اس طرح وہ ایک سرکش اور مرکزی دشمن سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، لہٰذا انہوں نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔ اگر ہم یہ کہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ دولت بیزنطیہ تقریباً آٹھ سو سال تک قائم رہی اور اس کا یہ قیام دار الحکومت قسطنطنیہ کی بقاء کا مرہونِ منت تھا اس شہر کی محفوظیت اور اسے فتح کرنے کی امویوں کی لگاتار کوششوں کے سامنے اس کا جم کر کھڑے رہنا اس سلطنت کے سقوط کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب انتیس مئی ۱۴۵۳ء بمطابق ۸۵۷ھ عثمانی سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد اس پر قبضہ کر لیا تو اس سے دولت بیزنطیہ کے سقوط اور وجود کے زوال کی راہ ہموار ہو گئی۔[3] ثانیاً:… قسطنطنیہ پر قبضہ جمانے کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی معاویہ رضی اللہ عنہ اس امر کے خواہش مند تھے کہ پیش قدمی کی باگ ڈور ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہے اس لیے کہ وہی بحر متوسط کے جزائر کو افرادی قوت اور سامان حرب و ضرب فراہم کرنے اور وہاں کے رہنے والوں کو مصر اور شام کے ساحل پر حملہ آور ہونے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، انہوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کئی پہلوؤں پر کام کرنا شروع کیا:
Flag Counter