Maktaba Wahhabi

373 - 503
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کی بحرین پر ولایت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو علاء حضرمی کے ساتھ اس مقصد کے تحت بحرین بھیجا کہ وہ وہاں اسلام کی اشاعت کریں گے، مسلمانوں میں دینی سوجھ بوجھ پیدا کریں گے اور انہیں دینی امور کی تعلیم دیں گے۔ چنانچہ وہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرتے اور لوگوں کے لیے فتاویٰ کا اجراء کرتے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے عہد خلافت میں بحرین کا عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ مدینہ آئے تو ان کے پاس دس ہزار درہم تھے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اللہ اور اس کی کتاب کے دشمن! تو نے یہ مال اپنے لیے جمع کیا ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں اللہ اور اس کی کتاب کا دشمن نہیں ہوں، میں تو ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: تجھے یہ درہم کہاں سے ملے؟ انہوں نے جواباً بتایا میرے گھوڑوں نے بچوں کو جنم دیا، میرے غلام نے غلہ کمایا اور مجھے عطیات بھی ملتے رہے۔ جب تفتیش کی گئی تو ان کی بات درست ثابت ہوئی۔[1] اس کے لیے عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر عمال کی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی قسم دی۔ وہ کہا کرتے تھے: یا اللہ! امیر المومنین کی مغفرت فرما۔[2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دوبارہ والی بنانے کے لیے بلایا تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عمل و عہدہ کا مطالبہ تو تجھ سے بہتر انسان نے بھی کیا تھا، یعنی یوسف بن یعقوب علیہما السلام نے۔ انہوں نے جواب دیا: یوسف نبی بن نبی تھے جبکہ میں ابوہریرہ بن امیمہ ہوں۔ میں تمہارے عمل کے بارے میں اور دو چیزوں سے ڈرتا ہوں، انہوں نے کہا: تم نے پانچ کیوں نہ کہا؟ جواب دیا: میں ڈرتا ہوں کہ بدون علم کوئی بات کہوں، بدون حلم فیصلہ کروں، میری پیٹھ پر ضربیں لگائی جائیں اور میری عزت کو داغ دار کیا جائے۔[3] ح: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتنوں سے الگ رہنا:… ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کے دن بعض صحابہ اور ان کے بیٹوں کے ساتھ ان کے ساتھ ان کے گھر میں موجود تھے، یہ لوگ ان سے شورش پسندوں کو بھگانے کے لیے آئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد نے ان کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھا اور ان کا احترام کرتے رہے، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوئے تو اولاد عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے جنازے کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسے بقیع تک پہنچایا۔[4] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد فتنوں سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔[5] ط: ہنسی مزاح اور خوش طبعی:… ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صاف دل، خوش طبع اور حسن معاشرت سے متصف تھے، آپ ہنسی مزاح کو پسند کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر چیز کو اس کا حق دیا کرتے تھے، انہوں نے دنیا کو مسافر کی نظر سے دیکھا، امارت و حکومت نے انہیں بڑے پن کا احساس نہیں دلایا بلکہ ان کے عجز و انکسار اور
Flag Counter