Maktaba Wahhabi

60 - 503
ہم معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اس پہلو سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ بڑے ہمت و حوصلہ کے مالک تھے، جو لوگ ہمیشہ ان کے درپے آزار رہے وہ انہیں کھلے دل سے برداشت کرتے رہے، اپنی سیرت کے اس روشن ترین پہلو کے پیش نظر یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کریں جبکہ وہ ان کے دینی اور دنیوی مقام و منصب سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کے ہر معاملہ میں محتاج بھی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننا گوارا نہیں کرتے جبکہ وہ حکمران ہونے کے باوجود ان لوگوں کی باتیں بھی کھلے دل سے سنا کرتے تھے جو ان کے سامنے کھڑے ہو کر انہیں سب و شتم کیا کرتے تھے۔ پھر اگر وہ ایسے ہی تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کاتب وحی کیوں مقرر فرمایا؟ ۳۔ عہد رسول اللہ میں بنو امیہ کا کردار: دعوت اسلامیہ کے آغاز ہی سے بنو امیہ کے بہت سارے لوگ مشرف باسلام ہو گئے تھے۔ انہوں نے راہ اسلام میں گرانقدر قربانیاں پیش کیں اور ان میں سے بعض حضرات نے ہجرت حبشہ کی سعادت بھی حاصل کی۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر جب بنو امیہ کے تمام لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کے قبول اسلام پر دلی خوشی کا اظہار کیا۔ بڑے بڑے اہم معاملات میں ان پر اعتماد کیا اور انہیں ان کے مناسب حال مقام و مرتبہ پر فائز فرمایا تاکہ ان کی مساعی اور اہلیت سے استفادہ کیا جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو جس اعزاز سے نوازا وہ اہالیان مکہ میں سے کسی دوسرے کا مقدر نہ بن سکا۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی بھی ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہو جائے گا اسے امن حاصل ہو گا۔‘‘[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو عطاکردہ یہ عظیم اعزاز اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے زعما اور بااثر لوگوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نجران کا عامل مقرر کیا اور ان کے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی الٰہی کے منصب پر فائز فرمایا۔[2] صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ مجھے کسی علاقے کا امیر مقرر کیا جائے تاکہ میں کفار کے ساتھ اس طرح جنگ کر سکوں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ ان کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ میرے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی مقرر کر دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا۔[3] فتح مکہ کے بعد جس شخص کو اس کا پہلا امیر مقرر کیا گیا تھا وہ بھی بنو امیہ کا ہی ایک فرد تھا، اور وہ تھا عتاب بن اسید بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس۔ ابن اسحاق زید بن اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسید کو مکہ مکرمہ کا عامل مقرر کیا تو اس کا روزینہ ایک درہم مقرر فرمایا۔ اس پر وہ کہنے لگا: لوگو! جو ایک درہم پر بھوکا رہے اور وہ اسے بھوکا ہی رکھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا روزینہ ایک درہم مقرر فرمایا
Flag Counter