Maktaba Wahhabi

90 - 503
اپنے قرابت داروں کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کردار اسلام کے کریمانہ و رحیمانہ پہلو کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاo﴾ (الاسراء: ۲۶) ’’اور قرابت دار مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو، اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘ ان کا یہ قابل تعریف رویہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے عملی پہلو کو اپنانے کی بھی اعلیٰ مثال ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کے بارے میں جو کچھ جانتے تھے وہ دوسرے نہیں جانتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قرابت داروں کے ساتھ بڑی محبت کرتے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے اور ان پر احسان فرمایا کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے مال آیا تو آپ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دوسرے سب لوگوں سے زیادہ دیا۔[1]صرف عثمان رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ دیگر تمام مومنین کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں۔[2] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ان کے مخالفین و معاندین کے اس الزام و اتہام کی تردید میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیت المال سے اپنے قرابت داروں کو بہت زیادہ مال دیتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے قریش کے چار لوگوں میں چار لاکھ دینار تقسیم کر دئیے اور ایسے جْ مروان بن حکم کو لاکھوں روپے دے دئیے۔ مگر یہ محض الزام ہے اور یہ کسی بھی صحیح دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ ہاں آپ اپنے قرابت داروں کو بھی دیا کرتے تھے اور غیر قرابت داروں کو بھی۔ بلکہ آپ تو تمام اہل اسلام کے ساتھ حسن سلوک پر مبنی رویہ اپنایا کرتے تھے۔ مگر یہ کہنا کہ آپ اتنی کثیر مقدار میں لوگوں کو مال سے نوازا کرتے تھے تو اسے ثابت کرنے کے لیے صحیح اور ثابت شدہ دلیل کی ضرورت ہے، یہ ایک صریح جھوٹ ہے، اتنی بڑی رقم نہ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی کو دی اور نہ خلفائے راشدین میں سے کسی اور نے۔[3] ۱۲۔ کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کا حق دبا کر اپنے کسی قرابت دار کو کوئی عہدہ دیا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کا حق دبا کر اپنے کسی قرابت دار کو کوئی عہدہ نہیں دیا۔ اگر آپ نے ایسا کرنا ہوتا تو اس رعایت کے سب زیادہ حق دار ان کے سوتیلے بیٹے محمد بن ابوحذیفہ تھے۔ مگر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انہیں کسی ایسے منصب پر فائز کرنے سے انکار کر دیا جس کی وہ اہلیت نہیں رکھتے تھے: میرے بیٹے! اگر تم میں یہ کام کرنے کی صلاحیت ہوتی تو میں یہ ذمہ داری تمہیں ضرور دیتا، مگر تم اس کی اہلیت نہیں رکھتے۔[4] یہ آپ رضی اللہ عنہ کی اصول پسندی تھی نہ کہ اس سے کراہت یا نفرت کا اظہار۔ اگر ایسا ہوتا تو جب انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے مصر جانے کی اجازت طلب کی تھی تو اسے اس سفر کے لیے تیار نہ کرتے اور نہ اسے زاد راہ ہی دیتے۔[5] اس کے لیے بھی حضرت
Flag Counter