Maktaba Wahhabi

305 - 503
حربی اور ذمی کا تعلق ہے، تو اس بارے اختلاف وارد ہوا ہے۔[1] ب: عشر سال میں صرف ایک بار وصول کیا جائے گا۔ ج: مسلمان کے چوپائے جانوروں سے عشر وصول کرنے کی شرط یہ تھی کہ وہ کھلے چرنے والے ہوں۔ د: عشور غلام، مکاتب اور مضارب سے وصول نہیں کیا جائے گا، وہ صرف مال کے مالک سے وصول کیا جاتا تھا۔[2] ھ: تاجر سے عشر وصول کرنے کے بعد اسے رسید جاری کی جائے گی اور پھر اس کی بنیاد پر اس سے آئندہ سال عشر وصول کیا جئے گا۔[3] و: تاجر سے نہ تو تفتیش کی جائے گی اور نہ اس پر سختی کی جائے گی۔[4] ز: جو تاجر اس قدر قرضے کا دعویٰ کرے جس کی ادائیگی پر اس کے پاس موجود مال تجارت ختم ہو جاتا ہو تو مسلمان ہونے کی صورت میں اس کی تصدیق کی جائے گی اور شک گزرنے کی صورت میں اس سے حلف لیا جائے گا۔ (اس بارے اختلاف وارد ہے) [5] رہا ذمی تو اس کے بارے میں زیادہ صائب قول یہ ہے کہ اگر اس کے حق میں دو مسلمان گواہی دے دیں تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔[6] ح: مسلمان کے مال سے زکوٰۃ اور عشور ایک ساتھ وصول نہیں کیے جا سکتے۔[7] ط: اگر کوئی غیر مسلم کوئی ایسا مال لے کر گزرے جو ان کے نزدیک تو مال ہے مگر وہ مسلمانوں کے نزدیک مال نہیں ہے مثلاً شراب، خنزیر اور ان جیسی دیگر اشیاء، تو غیر مسلم اس کی قیمت کا تعین کریں گے اور پھر اس قیمت کو اس کے پاس موجود دوسرے مال تجارت کی قیمت کے ساتھ ملا کر اس سے عشور وصول کیا جائے گا۔[8] کچھ ایسے دلائل موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس دور میں عشور ملکی آمدن کا بڑا اہم جز تھا۔ مثلاً جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک سال کے لیے عشور کی وصولی سے منع کیا تو اس کے نتیجے میں ریاستی آمدن میں کمی واقع ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنا یہ حکم واپس لینا پڑا۔[9] ۵۔الصوافی: یہ وہ مال ہے جسے امام ارض فے سے بیت المال کے لیے خاص کرے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ یا اسے بزور بازو مفتوحہ علاقوں سے خمس کے حق سے حاصل کیا جائے یا غانمین کی دلی خوشی سے حاصل کیا
Flag Counter