Maktaba Wahhabi

136 - 503
میں اس واقعہ کا سرے سے ہی انکار کیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ اشعث بن قیس، معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگا: معاویہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم یہی سمجھو گے کہ تم نے اہل عراق کو قتل کر دیا۔ مگر ان وفود اور بچوں کا کون ذمہ دار ہے؟ اللہ تو فرماتا ہے: ﴿وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا﴾ (الحجرٰت: ۹) ’’اور اگر اہل ایمان کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو۔‘‘ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: ہمارے اور پانی کے درمیان راستہ کھول دو۔ اس پر انہوں نے ابو الاعور سے فرمایا: ہمارے بھائیوں اور پانی کے درمیان راستہ کھول دو۔[1] فریقین میں پہلے دن لڑائی پانی کے لیے ہوئی اور یہ ماہ ذوالحجہ کے آغاز کی بات ہے۔ جس سے مسلمانوں کی دو جماعتوں پر برائی کا دروازہ کھل گیا۔ اس پورے مہینے کے دوران فریقین میں مسلسل جنگ جاری رہی۔ لڑائی کی صورت یہ تھی کہ طرفین میں سے ایک ایک سردار اپنی اپنی محدود جماعت لے کر نکلتا۔ یہ دونوں جماعتیں کبھی صبح کے وقت اور کبھی شام کے وقت دن میں ایک بار اور کبھی دو بار لڑتیں اور دوسرا لشکر انہیں خاموشی سے دیکھتا رہتا۔ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے جو امراء زیادہ تر میدان میں اترتے، وہ تھے: اشتر، حجر بن عدی، شبت بن ربعی، خالد بن معتمر اور معقل بن یسار ریاحی۔ جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر سے زیادہ تر یہ لوگ نکلتے: حبیب بن مسلمہ، عبدالرحمن بن خالد بن ولید، عبیداللہ بن عمر بن خطاب، ابو الاعور سلمی اور شرحبی بن السمط۔ طرفین نے ہلاکت اور یکسر تباہی کے خوف سے پورے لشکر کے ساتھ جنگ کرنے سے اجتناب کیا علاوہ ازیں انہیں یہ امید بھی تھی کہ شاید طرفین میں صلح ہو جائے جس سے انسانی جانوں اور خون کو بچایا جا سکے۔ ۹۔ فریقین میں صلح کی کوششیں: ماہ ذوالحجہ کے بعد جب محرم کا مہینہ شروع ہوا تو طرفین نے لڑائی بند کر کے ایک دوسرے کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعہ سے یا براہ راست بات چیت کے ذریعہ سے صلح کی کوششیں جاری رکھیں تاکہ مسلمانوں کی جانوں کو ضیاع سے بچایا جا سکے۔ اگرچہ ماہ محرم کے دوران کے مراسلات کے بارے میں معلومات ضعیف الاسناد اور مشہور روایات[2] کے ذریعہ سے ہمارے سامنے آئی ہیں مگر ان کا ضعف ان کے عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا۔ سب سے پہلے سلسلہ خط و کتابت امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شروع کیا گیا۔ انہوں نے بشیر بن عمرو انصاری، سعید بن قیس ہمدانی اور شبت بن ربعی تمیمی کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے حسب سابق اپنا یہ مطالبہ دہرایا کہ وہ پہلے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے حوالے کریں یا وہ خود ان سے قصاص لیں اس کے بعد وہ ان سے بیعت کر لیں گے جبکہ اس
Flag Counter