Maktaba Wahhabi

103 - 503
۳۔ ان کی اپنی ذات یا امت کی مصلحت کی خاطر ان کے اجتہادات (منیٰ میں پوری نماز پڑھنا، قرآن جمع کرنا، مسجد نبوی میں توسیع کرنا) ۴۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم مثلاً عمار، ابو ذر اور عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ان کا برتاؤ۔ میں نے ان اعتراضات کے حوالے سے حضرت عثمان کا موقف اپنی کتاب ’’تیسیر الکریم المنان فی سیرۃ امیر المومنین عثمان بن عفان شخصیتہ و عصرہ‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی زندگی میں یا ان کی شہادت کے بعد ان پر جتنے بھی اعتراضات کیے گئے اور جن جن لوگوں کی طرف سے بھی کیے گئے وہ صحیح نہیں ہیں اور وہ اس حد تک نہیں پہنچتے تھے کہ ان کی وجہ سے خلیفہ راشد کو قتل کر دیا جاتا۔[1] مذکورہ بالا اعتراضات پر مشتمل روایات جو کہ تاریخ طبری اور دیگر کتب تاریخ میں مندرج ہیں اور جو غیرمعروف راویوں اور ضعیف مورخین اور خاص طور پر شیعہ سے مروی ہیں وہ ہمیشہ سے خلفاء اور ائمہ کی سیرت کے حقیقی پہلؤوں کے لیے ایک بڑی آفت بنی رہی ہیں۔ خصوصاً وہ روایات جو اضطراب و فتن کے دور سے متعلق ہیں۔ افسوس کہ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی سیرت کو ان خرافاتی روایات سے وافر حصہ ملا۔ پیچیدہ انداز میں احداث و واقعات کو روایت کرنا اور لا اصل امور کو وضع کرنا غالی قسم کے منحرفین کی ایسی کارستانی ہے جس سے مقصود ان لوگوں کی روشن و نیر سیرت کو داغدار کرنا ہے اور جس کا ادراک خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی ہو گیا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے امراء کے نام لکھا: لوگوں نے انتشار پھیلانا شروع کر دیا ہے اور وہ شر کی طرف مائل ہو رہے ہیں، اور ایسا تین وجوہ سے ہو رہا ہے: دنیا کو ترجیح دینا، نفسانی خواہشات کی فوری تسکین چاہنا اور دلوں میں کینہ رکھنا۔[2] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر لگائے گئے ان الزامات و اتہامات کے بارے میں ابن العربی فرماتے ہیں: وہ کاذب راویوں کی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے ازراہ ظلم و زیادتی یہ کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دوران مظالم کا ارتکاب کیا اور غیر معروف طور طریقے اپنائے … مگر سند اور متن کے اعتبار سے یہ سب کچھ باطل ہے۔[3] م:… لوگوں کو اشتعال دلانے والے اسالیب و وسائل کا استعمال: باغی عناصر بھی محفلوں میں لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکاتے، ان سے مناظرہ کرتے، لوگوں کے سامنے ان سے جھگڑا کرتے، ان کے امراء پر لعن طعن کرتے اور عائشہ، علی، طلحہ اور زبیر جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط تحریر کرتے اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ انہوں نے اس بات کی بڑی تشہیر کی کہ خلافت کے اصل حق دار علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ تھے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ان کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی۔ انہوں نے کوفہ، بصرہ اور مصر ایسے شہروں میں کچھ گروہوں کو بھی منظم کیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا تھا۔ انہوں نے اہل مدینہ کو یہ تاثر دیا کہ ہم یہاں
Flag Counter